نوکوٹ یا نئوں کوٹ کا قلعہ
#Noukot Fort
وادی سندھ کی پراسرار سرزمین پر کئی ایک تاریخی سلطنتوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں جو وقت کی گرد میں گم ہو چکی ہیں بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس گرد کو صاف کیا جاۓ تو ہمارے سامنے ایسے ایسے قدیم آثارات و کھنڈرات ابھرتے ہیں جن کی آغوش میں تاریخ صدیوں سے سسکیاں لے رہی ہے۔ میں آج آپکو وادی مہران میں ماضی کی بھول بھلیوں کے درمیان گمشدہ قلعے کی سیر کراؤں گا جسکو ” تھر کا دروازہ “ اور ” نو کوٹ “ کا قلعہ کہا جاتا ہے۔
نوکوٹ کو صحراۓ تھر کا داخلی راستہ یا دروازہ بھی کہتے ہیں یہ میر پور خاص سے 63 کلومیٹر اور حیدرآباد سے 150 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نو کوٹ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو کہ نو کوٹ قلعہ کے اردگرد آبادی پر مشتمل ہے. یہ قصبہ صحرا کے دہانے پر مَٹھی شہر سے تین کلو میٹر دور ہے اس بیابان ریگستان میں نوکوٹ کا قلعہ خاص کشش رکھتا ہے۔ نو کوٹ کا مقامی لفظی معنی ہے ” نیا شہر “....اس قلعے کے در و دیوار میں نو کوٹ اور اسکے بنانے والوں کی ایک طویل تاریخ ہے جو اس قلعے کی ویرانیت میں گم شدہ پڑی ہے۔
نو کوٹ قلعہ میر کرم علی خان تالپور جو تالپور سلطنت کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں ، انکی سرکردگی میں 1814 میں تعمیر ہوا۔ ایک اور تاریخ کے مطابق یہ قلعہ 1789 میں میر علی مراد تالپور نے تعمیر کرایا جبکہ میر کرم علی تالپور نے 1814 میں اسکی مرمت کروائی تھی۔ تالپور حکمرانوں نے صحرا میں کئی قلعے تعمیر کیے جن میں اسلام کوٹ ، فتح کوٹ ، سنگھارو اور مَٹھی کا قلعہ بھی شامل ہیں مگر نوکوٹ قلعہ اپنے حجم اور شان و عظمت کے لحاظ کے ان سب پر سبقت رکھتا ہے۔ تالپور بنیادی طور پر بلوچ تھے جو سندھ خطے میں 1680 میں داخل ہوۓ مگر 1775 تک یہ اس خطے میں نمایاں طاقت حاصل کرنے میں ناکام رہے تاہم تالپور کلہوڑا سلطنت میں مختلف حکومتی امور میں انکے ساتھ ساتھ شامل رہے. کئی تالپور لیڈروں کی کلہوڑا حکمرانوں کے ہاتھوں موت 1743 میں ہلانی کی تاریخی جنگ کی وجہ بنی اور یہیں سے سندھ میں تالپور سلطنت کی بنیاد پڑی۔ مؤرخوں کے مطابق تالپور مغلوں اور کلہوڑوں کی طرح اپنوں کے ظلم کا شکار نہیں ہوۓ۔ تالپوروں نے سندھ کے حوالے سے ایک ذاتی جاگیر کے طور پر برتاؤ کیا انہوں نے سلطنت میں امن و سکون اور اطمینان کو یقینی بنانے کے لیے اپنے خاندان کو کئی شاخوں میں تقسیم کر دیا جو کہ پورے خطے میں بکھر گئے۔ کلہوڑوں نے سندھ پر اپنے اسی سالہ دورحکومت میں اکیاسی مرتبہ بغاوتوں کا سامنا کیا جبکہ اس کے برعکس تالپوروں نے اپنے ساٹھ سالہ دور حکومت میں صرف دو بفاوتیں نپٹائیں ۔ اسی طرح نو کوٹ کا قلعہ تالپوروں نے صحرا میں اپنی طاقت کو مستحکم کرنے اور اپنے مضبوط حکومتی مرکز کے طور پر قائم کیا تھا۔ نوکوٹ قلعے کا ایک اور مقصد اس خطے میں ” سوڈھا سرداروں “ سے ٹیکس اور خراج کی وصولی تھا اور اسکے علاوہ راجپوتانہ کے اچانک حملوں سے بچاؤ بھی تھا۔
اگرچہ نوکوٹ قلعہ پاکستان کے دوسرے قلعوں سے نسبتاََ چھوٹا ہے مگر اسکے برعکس اس قلعے نے ایک اہم حفاظتی جگہ سنبھالی ہوئی ہے۔ اس قلعے نے قریباََ ایک کلومیٹر رقبے کا احاطہ کیا ہوا ہے اسکی لمبائی 113 میٹر اور چوڑائی 98 میٹر ہے اسکی تمام دیواریں اور برج مخروطی نما منظر دیتے ہیں۔ اسکا تنگ داخلی راستہ ناہموار گذرگاہ سے ہوتا ہوا دو بڑے آدھے دائرے کے برجوں تک جاتا ہے۔ چار میٹر کی موٹی دیوار قلعہ کو چاروں طرف سے اپنے گھیرے میں لئے ہوۓ ہے۔ اسکی تعمیر بھٹی پر پکی اینٹوں سے ہوئی ہے اور اس پر دلدلی مٹی کا لیپ کیا گیا ہے۔ اسکے گردا گرد فصیل پر نو آدھ دائرے کے دفاعی مورچے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے دو مرکزی محرابی انٹرنس کی حفاظت کرتے ہیں انکی بلندی سات میٹر پر محیط ہے جبکہ چار مورچے چاروں کونوں پر اور ایک ایک مورچہ شمالی ، جنوبی اور مغربی دیوار کے درمیان میں بنایا گیا ہے۔
قلعہ کے اندر کحھ کمروں کی باقیات پائی گئی ہیں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بیرکس یا رہائشی کوارٹرز ہوں گے. ایک بڑا صحن ہے جو تالپور دور میں شاہی عدالت کے لیے استعمال ہوتا تھا اس صحن کے گردا گرد سرنگ نما کمرے بنے ہوۓ ہیں اور ایسی غلام گردشیں ہیں جو ذہنی دلچسپی کا مظہر ہیں۔ یہاں چھوٹے کمرے بھی ملے ہیں جس کے بارے ہسٹورینز کا خیال ہے کہ یہ قیدخانے یا اسلحہ خانے ہوں گے مگر اس بارے یہ خیالات ابھی تک مستند نہیں ہیں کہ یہ کس مقصد کے تحت بنائے گئے۔ان کے بارے مقامی طور پر یہ بھی مشہور ہے کہ یہ کمرے بطور پھانسی گھاٹ کے استعمال ہوتے تھے انکی چھتوں میں لوہے کے کڑے بھی ملے ہیں اور آس پاس بیٹھنے کے لیے اینٹوں کی بنی نشستیں بھی ہیں۔
پہلے پہل یہ قلعہ بطور محفوظ یادگار وزارت کلچر حکومت سندھ کے زیر کنٹرول رہا بعد ازاں جولائی 2011 میں طوفانی بارشوں نے اسکی بعض دیواروں کو نقصان پہنچایا بارشوں کے موسم کے اختتام پر قلعے کا داخلی دروازہ اور بیرونی دیوار مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ 2012 میں اینڈومنٹ فند ٹرسٹ نے سندھ میں تاریخی اور ثقافتی یادگاروں کی مرمت کا کام شروع کیا اور اس دوران نوکوٹ قلعہ کی بھی مرمت کی گئی مگر اسکے باوجود قلعہ کے اندر کئی حصے مرمت طلب ہیں اور اس سلسلے میں حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔
نوکوٹ قلعہ صرف بطور سیاحتی جگہ کے نہیں ہے بلکہ یہ قلعہ اور اس جیسے دوسرے قلعے سندھ میں کالونیل دور سے قبل سندھی سلطنتوں کی حکومت، سیاست اور معاشرت کے بارے جاننے کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور یہ قلعے ان حکمرانوں کے بارے سوچ بچار پیدا کرتے ہیں جنہوں نے ان قلعوں کو اپنے اقتدار کے تحفظ اور اپنے دشمنوں کے حملوں کو روکنے کے لیے بنایا۔ نو کوٹ اور سندھ کے دوسرے قلعے سندھی کلچرز کےامین ہیں انکو محفوظ کرنے کے لیے سندھ حکومت کو اس طرف خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ اگر مستقبل میں انکی حفاظت کو یقینی نہ بنایا گیا تو ان قلعوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ یہ تاریخی اور آرکایولوجیکل اثاثے اور ان سے متصلہ خطے بھی اپنی تاریخ کو کھو بیٹھیں گے۔