وہ اس قدر شرمیلا تھا کہ اپنے دوستوں کو ملنے سے گھبراتا تھا۔ اس کے باوجود وہ اپنے دور کا بہترین مقرر بن گیا۔دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اس
قدر مشہور ہوں کہ ان کے نام کی جگہ اکثر ان کے نام کے ابتدائی حروف استعمال کیے جائیں۔ ان میں سے آئر لینڈ کا ایک باشندہ تھا ۔اس کے نام کے ابتدائی حروف جی، بی ایس ہیں ۔ میرے خیال میں وہ اپنے وقت کا سب سے نا مور ادیب تھا ۔اس کے نا قابل اعتبار زندگی کی کہانی پر ایک ایسی کتاب لکھی گئی،جس کا عنوان بھی اس ک نام نہیں۔فقط سرورق پر تین حروف درج ہیں ، جی،بی ایس¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬¬۔۔۔۔۔۔۔۔ جارج برنارڈ شاء
شاء کی زندگی عجیب تضادات دے بھری ہوئی تھی۔ مثلاً اس نے فقط پانچ برس سکول تعلیم پائی۔ لیکن رسمی تعلیم کی کمی کے باوجوداسے اپنے دور کا عظیم ترین ادیب تسلیم کیا گیاہے اور اسے زندگی میں وہ اعزاز حاصل ہوا جو ایک ادیب کی زندگی کے لئے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے۔لیکن جارج برنارڈ شاء نے محسوس کیا نہ اسے اعزاز اور نہ ہی روپے کی ضرور ت ہے۔لہٰذا اس نے روپیہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔آخر اسے اس بات پر رضا مندکیا گیا کہ وہ فقط ایک سیکنڈ کے لئے یہ رقم قبول کرلے اور ایک ہاتھ سے لیکر دوسرے ہاتھ سے”اینگلو۔سویڈش اوبی اتحاد، نامی جماعت کے لئے وقف کردے۔
برنارڈشاء کا والد ایک اچھے آئرش گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔اس کی والدہ نے اپنی ایک امیر چچی کی مرضی کے خلاف برنارڈ شاء کے والد سے شادی کی تھی اس جرم کی پاواشمیں اس کی چچی نے اسے اپنی جا ئداد سے عاق کر دیا تھا ۔ کنبے کی مالی حالت اس قدر پتلئ ہو گئی کہ برنارڈ شاء کو پندرہ برس کی عمر میں پیٹ پالنے کے لئے مجبوراً کام کرنا پڑا ملازمت کا پہلا برس پونڈ ماہوار سے بھی کم تنخواہ پر کام کرتا رہا۔
پھر سولہ برس سے بیس برس کی عمر تک وہ ایک ذمہ دار خزانچی کی حیثیت سے فرائض منصبی ادا کرتا رہا۔اس کی ہفتہ وار تنخواہ 35 شلنغ تھی۔ لیکن اسے دفتری کام سے نفرت تھی، اس کی یہ وجہ تھی کہ اس کی تربیت ایک ایسے گھرانے میں ہوئی تھی علم و فن اور ادب و موسیقی کی شمعیں روشن تھیں ،سات برس کی عمر میں برنارڈ شاء نے شیکسپئر بن یان، الف لیلی ٰ،اور بائبل کا مطا لعہ مکمل کر لیا تھا۔جب وہ بارہ برس کا تھا تو بائرن ،ڈکنز،ڈوما اور شیلے اس کی نظر سے گزر چکے تھے ،اٹھارویں برس میں قدم رکھنے سے پہلے وہ ٹائن وال، تصور کو تیز تر کر کے اس کا ذہن عجیب خوابوں کی آما جگاہ بنا دیا تھا اور وہ اسی سبب اپنےدفتری امور میں بالکل دہچسپی نہ لیتا تھا اس کا تصور تو ادب فن سائنس اور مذہب کے حسن زاروں کو اپنا مسکن بنائے ہوئے تھا۔
اپنی بیسویں سالگرہ سے تھوڑہا عرصہ پہلے ،جی،بی،ایس نے خود سے کہا:
”زندگی فقط ایک دفعہ حاصل ہوتی ہے ۔میں اسے دفتری الجھنوں کا ہر گز شکار نہ ہونے دوں گا۔ “
لہٰذا 1876ء میں وہ ملازمت ترک کرکے لندن چلا آیا جہاں اس کی والدہ موسیقی کا سبق دے کر گذر اوقات کر رہی تھی۔وہاں برنارڈ شاء نے اس اوبی زندگی کا آغاذ کیا۔جس نے اسے دولت اور دنیا میں شہرت بخشا تھی۔
لیکن ادب سے روزی کمانےسے پیشتر وہ متواتر نو برس تک لکھتا رہا۔ اس نے اپنا سارا وقت لکھنے کے لئے وقف کر دیا وہ ہر روز خود کو پانچ صفحے لکھنے پر مجبور کرتا ۔زیادہ نہیں فقط پانچ صفحے، اس کے متعلق شاء لکھتا ہے۔”میرے اندر طالب علم اور کلرک ابھی تک چھپا بیٹھا تھا۔اگر پانچواں صفحہ کسی جملے کے درمیاںن ختم ہو جاتا تو میں میں وہ جملہ ادھورا ہی رہنے دیتا۔اور اسے اگلے دن مکمل کر تا۔“
نو سال کے عرصے میں اس نے پانچ طویل ناول لکھے۔ ان میں سے ایک کا نام ”فنکاروں کے درمیان محبت“تھا۔اس نے اپنے ہر ناول کا مسودہ انگلینڈ اور امریکہ کے ہر ناشر کے پاس بھیجا لیکن ہر کسی نے انہیں واپس بھیج دیا بعض ناشروں نے اتنا ضرور لکھا کہ وہ اس کی اگلی کوشش کو دیکھنا پسند کریں گے ۔لیکن اتنا ضرور ہے کہ کسی نے اس کی ادبی صلاحیتوں پر نکتہ چینی نہ کی اور اسے یہ نہ کہا کہ وہ کوئی دوسرا کام کرنے لگے تو بہتر ہو گا۔بات یہ تھی کہ اسکے خیالات ان ککی سمجھ میں نہ آتے تھے۔
ان دنوں برنارڈ شاءکی مالی حالت اس قدر نہ گفتہ بہ تھی کہ اس کے پاس مسودے ارسال کرنے کی خاطر ٹکٹ خرید نے کے لئے بھی پیسے نہ ہو تے تھےادبی زندگی کے پہلے نو برس میں اس کی آمدنی فقط چھ پونڈ تھی۔
اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی نو برس میں اس نے ادب سے پہلے پانچ پونڈ ایک نئی دوا کے متعلق ایک مضمون لکھ کر کمائے۔چھٹا پونڈ اس نے ایک دفعہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی گنتی کر کے حاصل کیا۔
تو پھر شاء زندہ رہنے کے لئے پیسے کہاں سے لیتا تھا۔ اس نے بلا تکلف تسلیم کیا ہے کہ اس کے کنبے کو اس کے سہارے کی اشد ضرورت تھی۔
لیکن وہ کنبے کی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے کچھ نہ کرتا تھا۔اس کے بر عکس وہ کنبے کا دست نگرتھا ۔جیسا کہ شاء نے خود کہا ہے ”میں نے خود کو معاش کے بکھیڑوں میں ڈالنے کے بجا ئے اپنی والدہ کو ڈال رکھا تھا۔“
آخرشاء فنون لطیفہ کے نقاد کی حیثیت سے خود کفیل ہو گیا۔اس کی پہلی ادبی اور مالی کامیابی اس کے ناولوں کے بجائے اس کے ڈرامے ثابت ہوئے یہ الگ بات ہے کہ اس کے تمام ابتدائی ڈرامے نا کام نکلے۔
اس بات پر یقین نہیں آتا کہ برنارڈ شاء جو ایک بہترین اور اعلیٰ درجے کا مقرر تھا اور بڑے سے بڑے مجمع ککا مقابلہ کرنے کی حلاحیت رکھتا تھا اور اعلیٰ قوانین جمہوری ہیرا پھیری ، مزہبی اداروں اور انسانوں کی تقریباً مروجہ روایات پر کھلم کھلا کڑی تنقید کرتا تھا۔کسی زمانے میں شرمیلے پن،انکساری اور احساس کمتری میں بری طرح مبتلا تھا ۔لیکن یہ حقیقت ہے مثلاً جوانی کے دنوں شاء کبھی کبھی ان دوستوں کو ملنے کے لئے جو لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے رہتے تھے ۔ایسے موقعوں پر شاء کی کیا حالت ہوتی تھی اس کا نوشہ اس نے خود بیان کیا ہے۔
شر میلے پن کی اذیت مجھے اس قدر تنگ کیا کرتی کہ میں بعض اوقات اپنے کسی دوست کے دروازے پر دستک دینے سے ہچکچاتا اور کتنی کتنی دیر تذبذب کے عالم میں اس کے مکان کے ذرا ہٹ کر ادھر ادھر گھومتا رہتا ۔ تیز تیز قدم اٹھا تا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑتا اور راستے میں خود سے کہتا کی اگر واپس چلے آنا اتنا آسان ہے تو پھر خود کو اذیت میں مبتلا کرنے سے کیا فا ئدہ ،بہت کم لوگ جوانی میں مجھ سے زیادہ بز دل یا دوسرے الفاظ میں شرمیلے ہوں گے۔“
اس کے با وجود برنا رڈشاء معاشرے میں اپنے طرز سلوک کے متعلق اس قدر محتاط تھا کہ لندن کی اچھی لائبریری میں اسے آداب زندگی کے متعلق جو بھی کتاب نظر آئی ۔اس نے پڑھ ڈالی ۔لیکن جس واحد کتاب سے اس نے استفادہ کیا ،اس کا نام ہے ”اچھے معاشرے کا لب و لہجہ۔“
آخر اس نے اپنے شر میلے پن انکساری پر قابو پانے کے لئے ایک راہ نکالی اور وہ فن تقریر کی ایک کلاس میں داخل وہ گیا۔پہلے پہل چند دفعہ اس نے اس اعتماد کے ساتھ تقریر کی اگلے چند موقعوں پر اس کے لئے اپنی کپکپاتی ہوئی انگلیوں سے کاروائی کے رجسٹر پر دستخط کرنا مشکل ہو جاتا نوٹس کی عدم موجود گی میں۔۔۔۔۔۔ اسے یاد نہ رہتا ک کہ وہ کیا کہنہ چا ہتا ہے تقریر کرتے وقت اس کی حالت بڑی قابل رحم ہوتی ۔اس کے با وجود لوگ اس کی باتیں سنتے ۔اپنے شرمیے پن پر قابو پانے کی اس نے قسم کھا لی ۔لندن میں جہاں کہیں عوامی جلسہ ہوتا۔وہ وہاں ضرور جاتا۔اور ار اسے بولنے کا موقع مل جاتا تو ضرور بولتا۔پھر ایک شام جبکہ شاء کی عمر چھبیس سال کی تھی اس نے ”ترقی اور اخلاص“ کے مصنف ہندی جارج کی تقریر سنی ۔وہ سنگل ٹیکس کے نظرئیے پر اظہار خیال کر رہا تھا۔
یہ تقریر سننے کے بعد شاء سیا ست کی راہ پر چل نکلا اور وہ فوراً زمین کو قومی ملکیت بنانے کے موضوع پر تقریریں کرنے لگا۔پھر کسی نے اسے بتایا کہ سنگل ٹیکس کے مسئلہ پر کوئی شخص اس وقت تک بحث کرنے کے قابل نہیںہوتا جب تک اس نے کارل مارکس کی کتاب”سرمایہ“نہ پڑھی ہو۔اس کتاب کے مطالعہ نے اس کی باقی زندگی پر کیا اثر کیا۔یہ خود شاء بتاتا ہے ۔ ”سرمایہ“کا مطا لعہ میری زندگی میں ایک کتاب سے کم نہ تھا۔کارل مارکس میرے لئے ایک انکشاف تھا اگر چہ اس کی مہم اقتصا دیات بعد میں میں نے غلط پائی لاکن اس وقت اس نے میرے سامنے ایک نیا دروازہ کھول دیا ۔اس نے تاریخ اور تہذیب کے حقائق کے بارے میں میری آنکھیں روشن کر دیں اور ان کے متعلق مجھے ایک تازہ نظریہ عطاکیا ۔مجھے اپنی زندگی کا کوئی مقصد ،کوئی نصب العین دکھائی دینے لگا۔قصہ مختصر اس نے مجھے انسان بنا دیا ۔
ہاں اب برنارڈ شاء کا لہو لوگوں میں بولنے لگا تھا ۔اس کا شرمیلا پن،اور انکساری جاتی رہی تھی ۔شاء کے ہاتھ میں ایک کتاب آگئی تھی۔بلکہ یہ کہنا زیادہ موضوں ہو گا کہ ایک شاء ایک کتاب کے سحر میں گرفتار ہو گیا تھا۔ایک کتاب جس نے اسے جہاد پر تیار کر دیا اور اس کی اپنی ہستی اس کی نظروں سے اجھل ہو گئی ۔اب اسے اپنے نصب العین کتے سوا کوئی چیز عزیز نہ تھی۔اگلے بارہ برس وہ تقریباً ہر رات گلیوں کی نکروں پر کھڑا ہو کر ،عوازمی جلسا گاہوں اور کلیسائوں میں سو شلزم کا پر شار کرتا رہا ۔لوگ اس کا مزاق اڑاتے لیکن وہ ان سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن رہا اور ایک دن وہ اپنے وقت کا عظیم مقرر بن گیا۔ آخر ایک مقرر کی حیثیت سے اس کی مانگ اس قدر بڑھ گئی کہ لوگ معاوضہ دے کر اس سے تقریریں کرانے گے۔ لیکن ایسے معاوضے وہ اپنے پر حرام سمجھتا اور یہ رقوم اپنے نصب العین پر خرچ کرتا۔
1896ء میں برنارڈ شا۴ شارلٹ ٹائون شنیڈ نامی ایک خاتون سے ملا اس وقت شاء چالیس برس کا کا کنوارا اور شارلٹ 39نبرس کی کنواری خاتون تھی شارلٹ کو ورثے میں خاصیدولت ملی تھی۔شاء کو ان دنوں امریکہ میں اپنے ایک ڈرامے کی کامیابی پر بیس ہزار پونڈ ملے تھے۔ شارلٹ معا شرتی زندگی سے تنگ آچکی تھی اور سوشلزم سے بہت متاثر ہوئی تھی وہ شاء میں دلچسپی لینے لگی اور اس حقیقت سے اسے آگاہ کر دیا ۔بعد میں وہ شاء کو خود پسند اور ظالم کہا کرتی تھی۔
وہ برس گزر گئے ۔اس دوران میں شاء کو شادی کا کبھی خیال نہ آیا ۔آخر مارچ 1898ء میں شارٹ میونسپل اداروں کے مطالعے کے غرض سے روم چلی گئی۔جب وہ روم پہنچی تو اسے ایک تار ملا۔شاء بڑا سخت بیمار تھا وہ الٹے قدموں لندن واپس لوٹ آئی ۔زیادہ کام کرنے سے شاء کی صحت خراب ہو گئی تھی۔جس گندے کمرے میں وہ کام کیا کرتا تھا اس کی حالت دیکھ کر شارلٹ کو سخت صدمہ ہوا۔
اس کمرے کے متعلق شاء خود ہی کہا کرتا تھا کہ اسے تو فقط بارود کا ایک فیتہ ہی صاف کر سکتا ہے اگر سات جوان لڑکیاں اور سات جوان لڑکے نصف صدی تک یہ کمرہ صاف کرتے رہیں۔تو پھر بھی اس پر کوئی اثر نہ ہو گا۔“
جب سبز آنکھوں والی شارلٹ نے شاء کو وہ کمرہ چھوڑنے اور اسے اپنے ہمراہ اپنے گائوں چلنے پر مجبور کیا تو شاء نے اسے کہا کہ وہ پہلے بازار جا کر ایک انگوٹھی اور شادی کا لائسنس لے آئے۔
انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی کے پنتالیس برس بڑے ہنسی خوشی سے گزارے۔مسز شاء کا انتقال 12 ستمبر 1943ء کو ہوا۔ ہر شخص یہ ہی شاہتا تھا کہ وہ شاء سے بیس برس چھوٹی تھی اور شاء اس سے پہلے مرے گا۔لیکن حقیقت میں ان کی باہمی عمروں کا فرق چار ماہ تھا۔
اگر چہ شاء 1856ء میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس نے 1946ء میں اعلان کیا تھا کہ وہ اس قدر مصروف ہے کہ ابھی موت کے بارے میں سوچنے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں ۔اس نے کہا تھا۔”میں زندگی میں زندگی کی خاطر دلچسپ لیتا ہوں، یہ میرے نزدیک کوئی مختصر شمع نہیں۔میرے لئے یہ ایک شاندار مشعل ہے اور میرے ہاتھ میں ہے۔اسے آئندہ پودکے سپرد کرنے سے پہلے میں اسے زیادہ سے زیادہ روشن دیکھنا چاہتا ہوں۔“