پاکستان کی سیاسی تاریخ اور عام انتخابات کے بکھیڑوں کا نچوڑ اگر کسی ایک جملے میں پیش کیا جائے تو یہ ’امید پر قائم دنیا ہوگی‘ لیکن اگر اس پوری کہانی کو ایک لفظ میں سمویا جائے تو وہ خلاصۂ کلام و بیان امید ہی ہے جسکے تحت ہونے والے انتخابات نے عام آدمی کو اس بات پر یقین کرنے کی ترغیب دی ہے کہ یہی نجات دہندہ ہے! درحقیقت ووٹ کی پرچی پر لگایا گیا ٹھپہ‘ قسمت کی سیاہی دور اور مسائل حل کرنے کا ذریعہ ثابت نہیں ہو سکا تو اس کیلئے یکساں ذمہ دار عوام ہیں‘ سیاسی جماعتیں تو خالص منافع کے اصول پر چلتی ہیں‘یہ جماعتیں امید لئے میدان میں اُترتی ہیں کہ جیت انہی کی ہوگی‘ امیدوار اس آسرے پر نوٹ لٹاتے ہیں کہ یہ نوٹ ووٹ کی پرچیوں میں ڈھلیں گے اور یہ پرچیاں کامیابی دلا کر ان کیلئے آمدنی کا ذریعہ ثابت ہوں گی! انتخابات کی دنیا بھی امید پر قائم ہے اور اس دنیا بہرصورت کامیاب ہونے والے انتخابی امیدوار ہیں‘ جو باری باری ایک دوسرے کو موقع دیتے ہیں!امیدواری پرانا چلن بلکہ دنیا کے قدیم ترین مشاغل میں سے ایک ہے۔ جب کرۂ ارض پر بادشاہت برطانیہ کے تاج دار خاندان کی طرح بادشاہی کی پینٹنگ بننے کے بجائے پوری خونخواری کیساتھ فعال تھی اس دور میں تاج اور تخت کے کئی کئی امیدوار ہوا کرتے تھے‘ یہ لوگ بڑے رحم دل اور عوام دوست تھے چنانچہ عوام کو زحمت دینے اور قطاروں میں لگوانے کے بجائے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگاکر خود کو ازخود منتخب کرلیا کرتے تھے ان کی دھندلی سی اک تصویر آج کے آمر حکمرانوں میں دیکھی جاسکتی ہے‘۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ان امیدواروں کی امید دوسروں کے مرنے پر منحصر ہوتی تھی‘ ان سے بھی پہلے امیدواروں کی جو قسم وجود میں آئی وہ اب تک چلی آرہی ہے‘کبھی ان امیدواروں کا مطالبہ ہوا کرتا تھا ’’ہٹاؤ آئینہ امیدوار ہم بھی ہیں ۔۔۔ تمہارے دیکھنے والوں میں یار ہم بھی ہیں۔‘‘ ڈھیٹ محبوب آئینے کی جان نہیں چھوڑتا تو امیدوار اُکتا کر کہتے ’’آئینہ ہی کو کب تئیں دکھلاؤ گے جمال ۔۔۔ باہر کھڑے ہیں کتنے اور امیدوار بھی۔‘‘ اگر محبوب انکی حالت پر ترس کھالے اور سرراہے پل بھر کو نقاب اٹھا دے تو یہ بیچارے اسی دید پر خوش ہوجاتے اور بے اختیار کہہ اٹھتے’’بس تو نے اپنے منہ سے جو پردہ اٹھا دیا ۔۔۔ حسرت نکل گئی دل امیدوار کی۔‘‘ کیا امیدوار ہوا کرتے تھے‘ ایک جھلک پر صدقے واری ہوکر اس کامیابی کی مسرت میں جھومتے باقی کی زندگی گزار دیتے تھے نہ بیاہ کی تھی تمنا نہ صلے کی پروا۔ یہ ان خوبصورت دنوں کی بات ہے جب محبوب آئینے ہی کو منہ دکھاسکتا تھا‘ اگر کسی نامحرم کے سامنے چہرہ نمائی ہوجائے تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا تھا‘چنانچہ کسی ماہ رخ کا ایک نظر دیدار ہی کارنامہ قرار پاتا تھا‘دید کی امید میں امیدوار پردہ ہلنے تک محبوب کے دروازے پر ساکت کھڑے رہتے تھے اور جب ہلتے پردے کے پیچھے سے محبوب کے والد بزرگوار نکلتے تھے تو امیدوار حالت سکون سے بجلی کی سی حرکت کے ساتھ رفوچکر ہوجاتے۔
وقت کیساتھ ساتھ محبوب کی سرگرمیاں بڑھتی چلی گئیں اور اس کے امیدواروں کی کوششوں اور خواہشات کا دائرہ بھی وسیع ہوتا رہا اب ساکت کھڑے رہنے کے مقامات بس سٹاپ‘ کالج اور یونیورسٹی کے گیٹ قرار پائے۔ مقامات کیساتھ مطالبات بھی بڑھتے گئے اور دید کے بعد شنید تک بات جاپہنچی۔ زمانہ اور جدید ہوا تو محبوب کے دیدار کی حد تک امیدواروں کے درمیان مقابلہ بازی کا سلسلہ ختم ہوا‘ اب سوشل میڈیاکے ذریعے رابطے بحال ہوئے‘بقول شاعر ’’تصویریار‘ جب ذرا انگلی ہلائی دیکھ لی‘تاج اور تخت کے امیدواروں کے بعد کرسی اور نشست کے امیدواروں کا دور آیا‘ انہیں عرف عام میں ’انتخابی امیدوار‘ بھی کہا جاتاہے۔ مختصراً تعریف یہ ہے کہ جو عوام کی امیدوں کو اپنی آرزوؤں اور مفادات پر نچھاورکر دے اسے انتخابی امیدوار کہا جاتا ہے۔ الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد عوام کی کوئی امید بر نہیں آتی اور ان انتخابی امیدواروں کی صورت بھی گم ہو جاتی ہے جیسے’ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘ لمحہ فکریہ ہے کہ جنہیں قانون ساز ایوانوں کے لئے منتخب کیا جاتا ہے کہ یہ وہاں بھی کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ اصولی طور پر الیکشن کمیشن کسی بھی ایسے تجربہ کار سیاسی امیدوار کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہ دے جس کی ماضی کے کسی ایوان میں حاضری 60 فیصد سے کم رہی ہو۔ ایک طرف خود کو قیادت کا اہل سمجھنے والے ہیں اور دوسری طرف عام آدمی کہ جن کی ساری زندگی قطاروں اور انتظارگاہوں میں یا پھر انکے بارے میں سوچتے گزر جاتی ہے۔