گرماگرم انتخابی ماحول میں آنیوالی رپورٹس کے مطابق وطن عزیز کی سینئر سیاسی قیادت کے ظاہر کردہ اثاثوں کا حجم بھی اربوں روپے میں بنتا ہے دوسری جانب وزارت داخلہ نے بیرون ملک سے الیکشن کو سبوتاژ کئے جانے کی کوششوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے سیکرٹری داخلہ رضوان ملک ایوان بالا کی خصوصی کمیٹی کو اپنی بریفنگ میں بتاتے ہیں کہ امیدواروں پر دہشتگرد حملے ہوسکتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں حملوں کے حوالے سے تمام انفارمیشن صوبوں کی طرف سے دی گئی ہے دوسری جانب عام انتخابات کے موقع پر سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے مہیا تفصیلات کے مطابق رینجرز اور کانسٹیبلریز کا کردار زیادہ نمایاں ہوگا اسکے ساتھ3 سیسنا طیارے ہمہ وقت سکیورٹی کیلئے تیار ہونگے الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کیلئے ساڑھے تین لاکھ فوجی اہلکار مانگ لئے گئے ہیں خیبرپختونخوا میں رسپانس سنٹر کے قیام کیساتھ متبادل سکیورٹی پلان بنانے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے کسی بھی ریاست میں عام انتخابات جیسے بڑے اور اہم مرحلے کی کامیابی صرف حکومتی اقدامات سے ممکن نہیں ہوتی اس کیلئے سیاسی قیادت اور عام شہری کو بھی اپنا بھرپور اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے اس مقصد کیلئے جہاں سیاسی ورکرز کو مختلف ضوابط کا پابند بنانا ضروری ہے وہیں عام شہری اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کے درمیان فاصلوں کو گھٹانا بھی ناگزیر ہے ۔
اس سب کیساتھ سیاسی قیادت کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے طورپر سکیورٹی کاانتظام کرے اور ہر معاملے میں سرکاری مشینری کی جانب ہی نہ دیکھا جائے وطن عزیز کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنج‘معیشت پر کھربوں روپے کے قرضے‘ عوام کی مشکلات‘ آبی ذخائر کی تعمیر‘ توانائی بحران کا خاتمہ یہ سب ایسے معاملات ہیں جن کیلئے مستحکم جمہوری نظام کا تسلسل ضروری ہے ایک ایسے سسٹم کا جس میں سیاسی اختلافات کیساتھ کم از کم اہم امور پر فیصلے متفقہ ہوں ‘اس حقیقت کو مدنظر کھا جائے کہ غریب اور متوسط شہری کیلئے پورا نظام صرف اسی صورت ثمر آور ثابت ہو سکتا ہے جب وہ اپنے مسائل کا حل پائے اسے اقتصادی اعشاریوں اور سٹاک ایکس چینج کے انڈیکس سے کوئی دلچسپی نہیں اسے کسی جماعت کے لمبے چوڑے ایسے انتخابی منشور سے کوئی غرض نہیں جس میں طرح طرح کی ترجیحات کاذکر ہو اب جبکہ قوم ایک بار پھر انتخابی عمل کی جانب جارہی ہے اسے ایک موثر پلاننگ دینا ضروری ہے تاکہ ٹرن آؤٹ بڑھے اور لوگوں کا سسٹم پراعتماد زیادہ ہو۔
میرٹ اور کارکردگی
خیبرپختونخوا میں سرکاری شفاخانوں کے انتظامات سے متعلق درجنوں تجربات ہو چکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مقصد ہمیشہ صورتحال میں بہتری لانا ہی تھا تاہم رائے اس میں بھی دوسری نہیں کہ کتابوں میں جتنی چاہے بہتری آئے برسرزمین مریضوں کی مشکلات میں نمایاں کمی دیکھنے کو نہیں ملتی اس ساری صورتحال کا جائزہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی لے چکے ہیں صوبے کی حکومت ایک مرتبہ پھر اہم شفاخانوں کے انتظامات سے متعلق اہم فیصلے کرنے جارہی ہے اس میں اولین ترجیح میرٹ اور کارکردگی ہونی چاہئے دیکھنا یہ ضروری ہے کہ اربوں روپے کے بجٹ مختص کرنے پر کسی بھی ہسپتال میں مریضوں کو کتنی ریلیف ملی اگرمریض اسی طرح شکایات کے انبار لگاتے ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ تجربات کی جاری سیریز میں مزید تجربے بھی ناکام ہوگئے ہیں اسی تناظر میں اگلے اقدام کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
Every politician is cheater. Politicians are main issue of Pakistan.
Downvoting a post can decrease pending rewards and make it less visible. Common reasons:
Submit