ایک دن میں اکیلا علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ ایک عرصے سے وہ صاحبِ فراش تھے لیکن اس روز وہ غیر معمولی طور پر مضمحل نظر آئے ۔ میں بھی خاموش بیٹھا رہا ۔ اچانک انہوں نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا صوفی صاحب کوئی ایسا لڑکا ہے جو مجھے بغیر ساز کے خوش الحانی کے ساتھ شعر سنائے ؟ میں نے فوراً جواب دیا جی ہاں ہے۔ہے؟ انہوں نے یہ لفظ کچھ اس انداز سے کہا کے میرا دل سینے میں دھڑکنے لگا۔کون ہے؟میرا ایک شاگرد ہےوہ یہاں آ سکتا ہے؟کیوں نہیں ، آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کو اپنی سعادت سمجھے گا۔ ایک دفتر میں ملازم ہے اگر آپ اجازت دیں تو ابھی جا کر اس سے مل لوں۔فرمایا ، تو جائیے ۔سہ پہر کا وقت تھا میں سراج نظامی کے پاس پہنچا اور کہا کہ علامہ صاحب شعر سننے کے لیے بے تاب ہیں ۔وہ بولا یہ میری خوش بختی ہے لیکن مجھے ایک ضروری کام ہے کل چلوں گا۔دوسرے دن اسی وقت وہ دفتر سے اٹھا اور میرے ساتھ چل پڑا ۔کوٹھی پر پہنچے ، میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب ، خوش الحان نوجوان حاضر ہے ۔یہ سن کر ان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی انہوں نے پیار بھری نظروں سے نظامی کو دیکھا یوں محسوس ہوا جیسے دل ہی دل میں اسے دعائیں دے رہے ہوں ۔نظامی نے بغیر کسی رسمی تمہید کے گانا شروع کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا نبض شناس ہر طرح کی نظمیں پڑھتا چلا گیا( فارسی ، اردو، پنجابی ۔۔۔۔) یہ صحبت دو ڈھائی گھنٹے تک رہی ۔ ڈاکٹر صاحب ایک عالم کیف میں ڈوبے رہے کبھی وہ بے ساختہ واہ کہتے اور کبھی گہری آہ بھر لیتے۔اس واقعے کے بعد مجھے امرتسر جانا پڑا ۔ میرے دوست تاثیر کی سالگرہ تھی ۔ چند روز بعد لاہور ریڈیو اسٹیشن دفتر پہنچے تو نذیر نیازی نے آ کر مجھ سے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کو دو دن سے یاد کر رہے ہیں ۔میں نے پوچھا ان کا کیا حال ہے؟ بولے ، چند دنوں سے ان کی طبیعت کچھ زیادہ ہی علیل ہے ۔شیخ حسام الدین بھی ہمارے ساتھ ہی تھے ۔ ڈاکٹر صاحب سے سیاسی اختلاف کی وجہ سے رابطہ منقطع ہونے کے باوجود ان کی علالت کی خبر سن کر شیخ صاحب بے تاب ہو گئے۔تاثیر ، میں اور شیخ صاحب فی الفور کوٹھی پر پہنچے ۔ڈاکٹر صاحب حسب معمول حقہ پی رہے تھے ۔ لیکن ان کے چہرے پر شگفتگی نہ تھی جو اکثر آشنا چہروں کے دیکھنے سے پیدا ہو جایا کرتی تھی ۔ گہری سوچ میں ڈوبے اچانک چونک پڑے ۔ مزاج پرسی کے بعد میں نے عرض کی آپ نے یاد فرمایا ؟بولے وہ نوجوان کہا ہے؟میں نے پوچھا ، کون نوجوان ؟وہ جس نے مجھے نظمیں سنائی تھیں ۔۔۔ وہ پھر آ سکتا ہے؟کیوں نہیں ، جب بھی آپ فرمائیں حاضر ہو جائے گا ۔پھر اسے ضرور بلائیے اور جلدی بلائیے مجھے اس کا گانا بہت پسند ہے ۔اس کے بعد علامہ صاحب نے سراج نظامی کر آواز اور گانے کی خوب تعریف کی ۔ اور پنجابی شاعری پر تبصرہ کیا۔پھر ڈاکٹر صاحب یونانی علاج کا تذکرہ کرنے لگے ۔ کہنے لگے یونانی دوائیوں میں ایسے عناصر موجود ہیں کہ بندہ جسمانی طور پر ٹھیک ہو نہ ہو ، ذہنی طور پر صحت یاب ضرور ہو جاتا ہے ۔ اتنے شدید مرض کے باوجود میرے زندہ رہنے کی شاید یہی وجہ ہے اس پر وہ یک لخت خاموش ہوگئے ۔ پھر فرمانے لگے ۔یہ لوگ کہتے تو ہیں کہ میں تندرست ہو رہا ہوں لیکن مجھے کہانی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔یہ الفاظ انہوں نے کچھ ایسے غمناک لہجے میں کہے کہ ہم سب دم بخود رہ گئے ۔ان کا دیرینہ خادم دروازے پر کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ایک اور صاحب وہاں بیٹھے تھے بولےکیوں روتا ہے کوئی فکر کی بات نہیں اللّٰہ سے فضل مانگو ۔ڈاکٹر صاحب پھر لیٹ گئے آنکھیں بند کر لیں اور فرمایااسے رونے سے مت روکو آخر پینتیس سال کا ساتھ ہے جدا ہوتے تکلیف تو ہوتی ہے۔میں نے گھر پہنچتے ہی نوجوان (سراج نظامی) کو ڈاکٹر صاحب کا پیغام دیا لیکن مجبوریوں کے باعث وہ حاضرِ خدمت نہ ہو سکا ۔چند روز کے بعد ڈاکٹر صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ان کے جنازے کے ساتھ ہزاروں کا مجمع تھا ۔ سب جنازے کو کندھا دینے کے لیے آگے بڑھتے تھے لیکن ہجوم کے بہت پیچھے ایک شخص تنہا سر جھکائے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے چلا جا رہا تھا ۔ آہوں کے ساتھ کبھی کبھی اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ بھی نکل آتی تھی ۔ اس کے قریب چلنے والے لوگوں کی نظریں اچانک ادھر کو اٹھتیں اور پھر مایوسی میں لوٹ آتیں ۔یہ وہی وعدہ شکن نوجوان سراج نظامی تھا۔صوفی غلام مصطفیٰ تبسماقتباس: اقبال سے آخری ملاقاتیں
Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!