انسانی حقوق کے معاملات پر سابق قانون سازی اسمبلی نے اپنے دور کا اختتام اونچے معیار پر کیا‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اس مسئلے سے متعلق ہے‘ جسکا آج تک کسی بھی بڑی سیاسی جماعت نے اپنے سابقہ منشور میں تذکرہ نہیں کیا تھا‘ یعنی خواجہ سراؤں کے حقوق‘ وسیع حد تک اطلاق رکھنے والا یہ حال ہی میں نافذ شدہ قانون اس مسئلے پر سیاسی جماعتوں کے اپنے منشور میں خاموشی کا عکاس ہے مگر یہ آخری اچھا اقدام اس حقیقت کو نہیں مٹا سکتا کہ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے جائزے میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی بڑی وجہ جبری گمشدگیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے‘ یہ وہ عمل ہے جو تاریخ کی ظالم ترین حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے۔کوئی سیاسی جماعت پچیس جولائی دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے تو اسکے پاس بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع ہوگا اور انکے دوہزار اٹھارہ کے منشور میں اس کا منصوبہ ہونا چاہئے‘تین مرکزی سیاسی جماعتوں نواز لیگ‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف میں سے صرف پی پی پی کے گزشتہ منشور میں جبری گمشدگیوں کا سرسری تذکرہ موجود ہے اس مرتبہ ریاستی امور پر سویلین اختیار اور بالادستی جتانے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اس قابل مذمت عمل کی حمایت سے انکار کو ریکارڈ پر لائیں اور اس عمل میں مصروف لوگوں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کے لئے اقدامات متعین کریں مگر اسکے ساتھ ساتھ فوجداری نظامِ انصاف میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ جبری گمشدگی منصفانہ ٹرائل کے حق کی شدید خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے؟
اب قومی سلامتی کو جبری گمشدگیوں کے عذر کے طور پر مزید استعمال نہیں کیا جانا چاہئے‘ اپنے آخری دور میں نواز لیگ کی حکومت نے انسداد دہشت گردی کی ذمہ داریاں مکمل طور پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو سونپ دی تھیں‘ اسکے بجائے سیاسی جماعتوں کو خفیہ اداروں پر جمہوری اور پارلیمانی نظرداری کے قیام کا عزم کرنا چاہئے۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے تیز اور سستے انصاف کی فراہمی اور گواہوں کے تحفظ کے نعروں کو اب عملی جامہ پہنایا جائے کیونکہ قانون صرف تب اچھا قرار دیا جاسکتا ہے جب اسکا نفاذ ہو سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو ستمبر دوہزارتیرہ میں منظور کئے گئے قانون تحفظ گواہان کے قواعد و ضوابط تیار کرنے میں تین سال لگے‘ اسکے علاوہ غیر سیاسی کمیونٹی پولیس بھی عوام کا حق ہے‘پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کو اس حوالے سے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی اکلوتی سب سے بڑی کامیابی سے سبق حاصل کرنا چاہئے کوئی بھی معاشرہ سیاسی مرحلے میں خواتین کی مردوں کے مساوی شراکت داری کو یقینی بنائے بغیر ترقی نہیں کرسکتا‘ مرد سیاستدانوں پر منحصر خواتین کی مخصوص نشستیں براہ راست انتخاب کا متبادل نہیں ہیں اور عمومی نشستوں پر خواتین کا دس فیصد کوٹہ ہر سیاسی جماعت کے ایجنڈے میں شامل ہونا چاہئے عوامی زندگی میں برابری کا تعلق نجی زندگی میں برابری سے بھی ہے مگر صرف پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت نے اب تک خواتین پر گھریلو تشدد کے قوانین کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھائے ہیں جن میں وومن پروٹیکشن سنٹرز شامل ہیں۔ گھریلو تشدد کا پی ٹی آئی کے گزشتہ منشور میں کوئی تذکرہ نہیں تھا‘امید ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت 2018ء میں خواتین کیخلاف متعصب ثقافتی حساسیت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی ایک اور حقیقت جس کا ہم اکثر و بیشتر سامنا کرتے ہیں‘۔
وہ اقلیتوں کیخلاف نفرت اور تعصب سے جنم لینے والا تشدد ہے‘ اس حوالے سے سیاسی جماعتیں ہر وقت مذہبی گروہوں کے دھمکی آمیز روئیوں کے سامنے خوفزدہ ہوکر ہتھیار ڈالتی رہی ہیں‘ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں اپنی اقلیتی اتحادی پارٹی جماعت اسلامی کے دباؤ میں آکر نصابی کتب میں نظریاتی طور پر متعصب زبان متعارف کروائی تھی پیپلزپارٹی سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی کے قانون پر پیچھے ہٹ گئی ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت توہین رسالت کے قانون میں طریقۂ کار کی تبدیلی کی بھی ہمت نہیں رکھتی‘ اس قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے اقلیتی برادری کے افراد زیادہ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں‘کیا کسی سیاسی جماعت میں اتنی ہمت اور کردار کی بلندی ہے کہ وہ اس اہم ترین مسئلے کا حل نکال سکے؟بچے بھی واضح وجوہات کی بناء پر اپنے تحفظ کیلئے خصوصی قوانین کے محتاج ہیں جیسا کہ ہم نے قصور میں بچوں کے استحصال کے معاملے میں دیکھا‘ہم اب بھی اپنے بچوں کے تحفظ کیلئے بہت ہی کم کام کر رہے ہیں‘سیاسی جماعتیں دوسرے ممالک میں بچوں کے اغواء سے خبردار کرنے والے نظام سے فائدہ اٹھاکر انہیں پاکستان میں نافذ کرسکتی ہیں جبکہ ساتھ ساتھ پہلے سے ہی موجود قوانین پر عملدرآمد بھی یقینی بنانا چاہئے گھروں میں کام کرنیوالے بچوں پر تشدد کے مسئلے کو بھی فوری حل ہونا چاہئے اور آنیوالے انتخابی منشور میں اس مسئلے پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے‘۔
سندھ میں شادی کی کم سے کم عمر کو اٹھارہ سال کرنا پیپلزپارٹی کی اہم کامیابی ہے مگر جووینائل نظامِ انصاف میں اصلاحات ابھی بھی ادھورا وعدہ ہیں‘جہاں تک خصوصی افراد کی بات ہے‘ جنہیں معاشرے میں کم ترین سماجی تحفظ حاصل ہے‘ تو تحریک انصاف کے گزشتہ منشور میں اس حوالے سے سب سے زیادہ وسیع تذکرہ کیا گیا تھا‘ جس میں نہ صرف انکی فلاح و بہبود بلکہ انہیں معاشرے کے دوسرے افراد کے برابر لانے اور اسمبلیوں میں انکی نمائندگی کا عزم بھی ظاہر کیا گیا تھا‘بھلے ہی یہ عزائم بہت بلند ہوں مگر پھر بھی پارٹی کے الفاظ کم از کم یہ تو واضح کرتے ہیں کہ پارٹی واقف ہے کہ معذور افراد کو معاشرے میں کس طرح دیوار سے لگا دیا گیا ہے‘ دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی پی ٹی آئی کی حکمت عملی سے کچھ سیکھنا چاہئے‘جہاں بلند بانگ نعرے انتخابی منشور کا حصہ ہوتے ہیں اور توجہ طلب مسائل کی موجودگی کا اعتراف بھی ہوتے ہیں مگر سیاسی جماعتوں کو حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ کرنا چاہئے کہ ان کی صلاحیتوں میں کیا کیا موجود ہے‘منشور میں بتائے گئے ہر موضوع پر ٹارگٹڈ قابل عمل اقدامات کا تذکرہ ضرور ہونا چاہئے سیاسی جماعتیں اگر اپنے وعدوں کو پورا کریں گی تو اگلے انتخابات میں مزید ووٹر جیتیں گی‘اگر وعدے پورا کرنے میں ناکام رہیں تو صرف مایوسی بڑھے گی‘ سیاسی جماعت سے بھی اور جمہوری مرحلے سے بھی۔