کسی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ کسی بھی قوم کو ہلاک کرنے کیلئے یہ قطعاً ضروری نہیں کہ اس پر ایٹم بم پھینکا جائے یا اس پر میزائل داغے جائیں اسے تباہ کرنے کیلئے بس آپ اس کی تعلیم کے معیار کو گرا دیں اور طلباء کو امتحانات میں نقل کرنے کی کھلی چھٹی دے دیں اس کا نتیجہ پھر یہ نکلے گا کہ ہسپتالوں میں اس قسم کے تعلیمی نظام کے پروردہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریض کثرت سے مریں گے ‘ اس نظام میں پیدا ہونے والے انجینئروں کے ہاتھوں تعمیر کی گئی عمارتیں جلد زمین بوس ہو ں گی ‘ اس ملک کے نام نہاد ماہرین اقتصادیات کے ہاتھوں ملک کی معیشت جلد ڈوبے گی ‘ قصہ کوتا ہ تعلیم کا زوال قوم کا زوال ہو گا زیادہ دور کی بات نہیں اس ملک کے پروفیشنل کالجوں میں ایف ایس سی کے بعد طلباء کو داخلہ واقعی میرٹ پر ملا کرتا تھا آج نا لائق طلباء و طالبات کے والدین کے پاس اگر لاکھوں روپے موجود ہوں تو ہ ان کو ان اس ملک کے پروفیشنل کالجوں میں بہ آسانی داخلہ دلوا سکتے ہیں ڈگری کی آج وہ وقعت باقی نہ رہی کہ جو کبھی تھی۔ ہم نے اس ملک میں یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ پی ایچ ڈی کرنے والے سکالرز ڈاکٹریٹ حاصل کرنے کیلئے غیر ملکی سکالرز کے لکھے ہوئے پی ایچ ڈی کے تحریری کام سرقہ کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں کسی زمانے میں یہ بات کافی مشہور تھی ۔
اس ملک کے دیہاتی علاقہ میں میٹرک یا ایف اے ‘ ایف ایس سی کے کمرہ امتحانات میں طلباء پر چہ حل کرتے وقت میز پر پستول بھی رکھتے تاکہ کمرہ امتحان میں موجود (Examiner) خوف کھاجائے اور ان کو نقل کرنے سے منع نہ کر سکے لیکن اب تو یہ بات دیہاتی علاقے تک محدود نہیں رہی اب تو آپ اس ملک کے کسی صوبے کے کسی بھی دور افتادہ علاقے میں واقع کمرہ امتحانات میں اس قسم کا طرز عمل دیکھ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے پڑھے لکھے ان پڑھ نکل رہے ہیں ان کے پاس بس کاغذ کی ایک ڈگری ہے باقی کچھ بھی نہیں کچھ عرصے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے چند پروفیسروں کو ڈاکٹریٹ کے مقالے چوری کرنے کے الزام میں پکڑا گیا تھا بعد میں یونیورسٹی والوں نے اور حکومت پنجاب نے قوم کو کچھ نہ بتایا کہ آخر ان کو کیا سزا ملی ؟ ان کو تو نشان عبرت بناناچاہئے تھا اگر تعزیرات پاکستان میں ان کو سزا دینے کیلئے کوئی دفعہ موجود نہ تھی توپارلیمنٹ کس مرض کی دوا ہے ؟ اس نے اس ضمن میں مناسب قانون سازی کی ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں بھی قوم اندھیر ے میں ہے ان پروفیسر صاحبان کی اس حرکت سے طلباء کو کس قسم کا سگنل گیا ہوگا؟ اس قسم کے حرکات ماضی میں ناپید تھیں دکھ کی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں لیکن ان میں آج کسی بھی ملک میں ایسی کوئی یونیورسٹی نہیں کہ جس کا ہم ہارورڈ‘ آکسفورڈ ‘ کیمبرج ‘ پرسٹن وغیرہ سے موازانہ کر سکیں ہم نہ تین میں ہیں۔
نہ تیرہ میں ہمارا کوئی شمار ہی نہیں تعلیم کی طرف ہمارے حکمرانوں کو توجہ ہی نہیں پارلیمنٹ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پڑھے لکھے لوگ جائیں گے تو تب ہی بات بنے گی کیونکہ ایک پڑھے لکھے شخص کو ہی احساس ہو سکتا ہے کہ تعلیم کی طرف توجہ کتنی ضروری ہے اپنا تو یہ عالم ہے کہ جب پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے ایک شرط یہ بھی رکھی گئی کہ امیدوار کا گریجویٹ ہونا ضروری ہے تو یار لوگوں نے اتنا شور غوغا مچایا کہ جسے کوئی قیامت آ گئی ہو جیسے انسانی حقوق کی پامالی ہو گئی ہو اس پارلیمنٹ سے کابینہ بھی تشکیل ہوتی ہے اور اس کے ارکان ہر شعبہ زندگی میں قانون سازی بھی کرتے ہیں اپنے ہاں تو یہ عالم ہے کہ ایک صوبے کے وزیر صحت ایک ہسپتال کی انسپکشن پر گئے ہسپتال کا انچارج ڈاکٹر انہیں ہسپتال کے مختلف وارڈ دکھلا رہا تھا ایک وارڈ میں پہنچ کر اس نے وزیر صاحب سے کہا جناب یہ لیبر روم ہے وزیر صاحب جھٹ سے بولے مجھے خوشی ہے کہ آپ لوگ مزدوروں کا بھی خیال رکھتے ہیں جس طرح ایران نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے یہ لازم قرار دے دیا ہے کہ پارلیمنٹ میں صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہی جا سکیں گے اپنے ہاں بھی ہمیں کچھ ایسا ہی بندوبست کرنا ہوگا۔