کافی دن ہوے ہیں میانوالی کے ایک بزرگ پیر سید فیروز شاہ صاحب نے خود پر بیتا ایک قصہ سنایا تھا۔ وہ اتنا دلچسپ اور سبق آموز تھا کہ آپ بھی سن لیجیے:
65 والی جنگ کے دنوں میں ہمارے والد صاحب بڑے بھائی کے لیے بہت پریشان تھے جو سندھ میں انسپکٹر پولیس تھے۔ والد صاحب نے مجھے زاد راہ دے کر وہاں بھیجا کہ کم از کم بھائی کے بیوی بچوں کو میانوالی لے آو۔ وہ سمجھتے تھے کہ میانوالی جنگی اثرات سے محفوظ رہے گا۔ میں ان دنوں تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر فارغ تھا چنانچہ والد صاحب کے حکم پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر بھائی صاحب کو والد صاحب کے حکم سے آگاہ کیا بھائی صاحب کہنے لگے والد صاحب سے کہنا کہ فکر نہ کریں، یہاں کوئی ایسی کیفیت نہیں ہے۔ میں اور میرا خاندان پوری طرح محفوظ ہیں اگر ایسی کوئی صورت حال دکھی تو میں ایسا ہی کروں گاجیسا وہ۔چاہتے ہیں۔ اور تم اب آ ہی گئے ہو تو دو تین دن رکو اور پھر واپس چلے جانا۔ واپسی پر بھائی صاحب مجھے چھوڑنے سٹیشن آے اور فرسٹ کلاس کا ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھما کر واپس چلے گئے۔ پلیٹ فارم پر پہنچا تو ٹرین وسل دے کر قدم بڑھا چکی تھی۔ بھاگم بھاگ ایک ڈبے کا ڈنڈا پکڑ کر سوار ہوا کہ اگلے سٹیشن پر درست جگہ ڈھونڈھ لوں گا۔ وہ ڈبہ تھرڈ کلاس کا اور کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک انگریزی رسالہ تھا ایک جگہ ٹک کر اسکی ورق گردانی کرنے لگا۔ ساتھ ایک ریٹائرڈ فوجی، جو ہنگامی بنیادوں پر بلاے گیے تھے بیٹھے تھے اور اوپر برتھ پر ایک صاحب لیٹے پان چبا رہے تھے۔ موضوع گفتگو جنگ اور ہندوستان کو چھٹی کا دودھ دلانے کا عظم تھا۔ ہر بندہ بڑھ چڑھ کر جوش و جذبے کا اظہار کر رہا تھا۔ اتنے میں کسی نے مجھے مخاطب ہو کر کہا بابو صاحب یہ انگریزی اخبار والے کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اس اخبار کی راے ہے کہ ہندوستان ہم سے دس گنا بڑا ملک ہے ہماری افواج بہت بے جگری سے لڑ رہی ہیں مگر جنگ نے طول کھینچا تو ہماری فتح کے سامنے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ برتھ پر بیٹھے ہوے صاحب پیرا شوٹر کی طرح چھلانگ لگا کر نیچے اترے اور پان کی پیک میری قمیض پر تھوک کر میرے منہ پر تھپڑ جڑ دیا اور نعرہ مارا ہندو کی اتنی جرات جو ہمیں سبق سکھا سکے۔ میں اس اچانک حملے سے سنبھل نہیں پایا تھا کہ پاس بیٹھے فوجی بھی مجھ پر پل پڑے۔ سب ہندوستانی جاسوس کے نعرے مار مار کر مجھے مارنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر کسی اللہ کے بندے نے ہنگامی سٹاپ کی زنجیر کھینچ دی ۔ گاڑی رکنے پر پولیس ڈبے میں آئی اور مجھے گرفتار کر کے پیچھے کسی جگہ لے گئی۔ وہاں ایک ڈی ایس پی بیٹھا تھا ۔ بھلا آدمی تھا اس نے مجھے پانی پلانے کا حکم دیا اور کچھ وقت سنبھلنے کو جب میرے حواس بحال ہوے تو میں نے اپنے خاندان اور بھائی صاحب کے تعارف کے ساتھ سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اس نے مجھے ایک تولیا دیا کہ لو چھوٹے شاہ جی اپنے سر منہ پر لپیٹ لو اچھی طرح جوں ہی گاڑی رکے چھلانگ مار کر بھاگ جانا۔ تمہارے پاس چند لمحے ہوں گے ورنہ ہجوم اکٹھا ہو گیا تو ہم سے نہیں سنبھلے گا۔ جب اگلا سٹیشن آیا گاڑی آہستہ ہونی شروع ہوئی تو ڈی ایس پی نے مجھے اشارہ کیا ۔ میں نے قدم اٹھاتے ہوئے ممنونیت سے اسے دیکھا تو اس نے میری طرف انگلی اٹھا کر ایک بات کہی:
یاد رکھنا، جو باتیں فرسٹ کلاس والی ہوں، انہیں تھرڈ کلاس میں بیٹھ کر نہیں کرتے۔ 😎 🤣
نامعلوم
“It requires wisdom to understand wisdom; the music is nothing if the audience is deaf.”
- Walter Lippmann