ارتغل غازی کی مکمل کہانی

in ertugrul •  4 years ago 

بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اورنہایت رحم کرنے والا ہے۔

ارتغل غازی کی مکمل کہانی

The Story of Ertugral Ghazi.png

ارتغل غازی بچپن سے بہادر، نڈر اور ایک اچھا گھڑ سوار تھا۔ اس کو تیر اندازی اور شمشیر زنی اپنے والد محترم سے ورثے ملی تھی۔ جب وہ شکار پر نکلتا تھا تو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا تھا۔ وہ طاقت ور ہونے کے ساتھ ساتھ بلا کا ذہین بھی تھا۔ اسی وجہ سے ان کے والد محترم ان پر بھروسہ کرتے تھے۔

ارتغل غازی کا تعلق ترکوں کےایک کائی قبیلے سے تھا۔ ان کے والد محترم کا نام سلیمان شاہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ کا بانی سلطان عثمان اول ارتغل غازی کا بیٹا تھا۔

اس تحریر میں ہم آپ کو ارتغل غازی کی مکمل کہانی بیان کرنے لگے ہیں تو اس تحریر کو شروع سے لے کر آخر تک پرھیں۔

ارتغل 1190ء میں ترکی کے صوبہ بروسہ میں پیدا ہوئے۔ جب منگولوں نے ترکمانستان پر حملہ کیا تو بہت سے قبیلوں نے حجرت کی وہ ایشیاء کے جانب روانہ ہوئے۔ کائی قبیلے نے شام کے آس پاس پڑاو ڈالا تھا۔ لیکن یہ علاقہ سردیوں کے لیے سازگار نہیں تھا۔

اس لیے ارتغل کا والد سلیمان شاہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد کسی بہتر مقام کی جانب ہجرت کی جائے۔ اس لیے اس نے ارتغل کو حلب بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے جانشین حکومت کر رہے تھے۔۔

جہاں پر سلیمان شاہ کی طرف سے ارتغل کو بطور ایلچی بھیجا جانا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ایک اور مصیبت کھڑی ہو گئی۔

جب ارطغرل غازی اپنے دوستوں کے ساتھ شکار کھیلنے گیا تو جنگل میں اس نے دیکھا کہ صلیبی جنگجو کچھ عیسائی قیدیوں کو لے کر جا رہے ہیں۔ ارطغرل غازی نے صلیبیوں پر حملہ کر دیا اور ان کو قتل کر دیا۔

وہ قیدیوں کو ساتھ اپنے قبیلے میں لے آیا۔ اس واقعے بعد صلیبی کائی قبیلے کے دشمن بن گئے۔

ان قیدیوں میں ایک بوڑھا شخص ایک بِیٹی اور ایک بیٹا بھی تھا۔ یہ بوڑھا شخص روم کا شہزادہ نعمان تھا۔ اس کی بیٹی حلیمہ بلجوک تھی جو بعد میں ارطغرل کی بیوِی بنی۔

جب ارطغل حلب میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے جانشین سے ملنے گیا تو غداروں نے قیدیوں کو سلجوکیوں کے حوالے کر دیا۔ حلب میں ارطغرل شازشوں کا شکار ہوا لیکن اپنی بہادری سے بچ نکلا۔۔

ارطغرل نے سلطان سے جو علاقہ حاصل کیا وہ صلیبیوں کے قلعے کے نزدیک تھا۔ وہاں پر رہنا موت کو دعوت دینا تھی۔ صلیبی پہلے سے ہی کائی قبیلے کے دشمن تھے۔

سلیمان شاہ نے اس علاقے میں پڑاو ڈال دیا جسے اناطولیہ کہا جاتا ہے۔ صلیبیوں نے بدلہ لینے کے لیے کائی قبیلے پر حملہ کر دیا۔۔ کائی قبیلے نے ارطغرل کی قیادت میں ان کے شاہی قلعے پر جوابی حملہ کر دیا اور فتح حاصل کر لی۔

1225 ء میں سلیمان شاہ وفات پاگئے۔۔ اور بعد میں قبیلے کی سرداری کا مسئلہ آیا۔ اس سے پہلے مینگولوں نے چنگیز خان کی قیادت میں چین اور ایران فتح کر لیا تھا۔ انہوں نے کائی قبیلے پر حملہ کیا اور قبیلے کو آگ لگا دی۔

کائی قبیلے نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور وہ اپنے دوست قبیلے دودورگہ چلے گئے۔ اس قبیلے کا سردار ارطغرل کا ماموں تھا۔ انہوں نے کائی قبیلے کو رہنے کی جگہ دی اور ان کی مدد کا فیصلہ کیا۔

ارطغرل نے مینگولوں کے خلاف لڑنے کی حامی بھری لیکن اس کے ماموں نے اس بات کی مخالفت کر دی۔ ارطغرل ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔ اس کو پتا تھا مینگول سکون نہیں کریں گئے ان کا علاج کرنا پڑے گا۔

ارطغرل نے اپنی بیوِی حلیمہ کو سلجوک ریاست میں بھیج دیا تا کہ وہ وہاں مقیم ہو سکے۔ اور مینگولوں کے خلاف جنگ بھی کر سکے۔ اس کے ماموں کی وفات کے بعد دودرگہ قبیلے کا سردار اس کا ماموں زاد بن گیا۔

جب ارطغرل قبیلے کے سردار کا چناو ہوا تو اس کے بھائیوں نے سرداروں کو پیسے دے کر ارطغرل سے تخت چھین لیا۔ ان اصل مقصد تھا ارطغرل کو اناطولیہ جانے سے روکا جائے۔
ارطغرل نے مینگولوں کو شکست فاش دی اور صلیبوں کی سرزمین اناطولیہ کی طرف سے ہجرت کرنے کا سوچا۔

ارطغرل کو ایک دینی صوفی ابن العربی کی رہنمائی بھی حاصل تھی۔ وہ ارطغرل کے ہر فیصلے پر اس کو مشورے دیتا تھا۔

ارطغرل نے اپنے بھائی سے بغاوت کی اور اپنے بیوئ بچوں ، والدین اور 400 جانثاروں کے ساتھ ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اور اناطولیہ کی مغربی سر حد پر آباد ہو گیا۔

وہ اس چھوٹے سے قبیلے کا سردار بن گیا۔ حالات سازگار نہیں تھے۔ یہاں تک کہ فاقوں کی نوبت آگئی۔ کائی قبیلے کی خواتین قالین بنانے کا کام کرتی تھیں۔ ان قالینوں کو بیچ کر اناج لایا جانے لگا۔ لیکن اناج بہت کم تھا۔۔

مغربی سرحد پر اس کا سب سے بڑا دشمن بیٹھا تھا۔ جس کے سردار نے ارطغرل کے قا لینوں کے قافلے پر حملہ کر دیا۔ اور تمام قالین جلا دئیے۔ اور اس کے کئی سپاہی قتل کر دئیے۔
جس کے بعد اس کے قبیلے پر اور مصیبیتں ٹوٹ پڑیں۔

وہ جس بازار میں تجارت کرتے تھے اس کو ہانلی بازار کہا جاتا تھا۔ جو ترکی میں آج بھی ہانلی بازار کے نام سے مشہو ر ہے۔ اس بازار کا مالک قسطنطنیہ کے صلیبیوں کا جاسوس تھا۔ اور اسی نے اطغرل کے قافلے پر حملہ کرویا تھا۔

جب ارطغرل کو معلوم ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو لے کر ہانلی بازار پر حملہ کر دیا اس بازار پر قبضہ کر لیا۔
سلطان سلجوک پہلے ہی ارطغرل کا مداح بن چکا تھا۔ وہ
ارطغرل کی بہادری اور اس کی ایمانداری کا قائل تھا۔

ترکی کے اصول کے مطابق تلوار سے حاصل کی گیا علاقہ اس شخص کی ملکیت ہوتا ہے۔ سلطان نے ارطغرل کو سارے علاقے کا سردار بنا دیا۔۔

سلطان نے سعادلدین کو واپس کونیا بلالیا۔ ارطغرل کی بہن اسلاحان اور بھائی عالیار نے ارطغرل کا ساتھ دیا۔ عالیار جانفشانی سے لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔ اس کی بہن اسلاحان کو قبیلے کی سردارنی بنا دیا گیا۔

ارطغرل نے اپنے بہترین دوست ترغد جس کو نور گل بھی کہا جاتا ہے۔ کی شادی اپنی بہن اسلاحان سے کر دی۔ نور گل کی پہلی بیوی مینگولوں کے حملے میں زندہ جلا دی گئی تھی۔ اس طرح دونوں قبیلوں میں دوستی کی فضا قائم ہو گئ۔۔

اس دوران قبیلے کا ایک کمانڈر ارطغرل کےہاتھوں میں مارا گیا۔ اور نیکا ء کے سلطان نے عارس کو گورنر بنا کر بھیجا۔ عارس نے ارتغرل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اور جنگ روک دی۔

لیکن امیر سعادلدین نے قبیلے کے دوسری شاخ سرادار بہادر بئے کے ساتھ مل کر ارطغرل کے ساتھ بغاوت شروع کر دی۔ اس نے ارطغرل کے بیٹے کو قید کر لیا اور بہادر بئے کے
ساتھ مل کر سازشیں شروع کر دیں۔

ارطغرل نے بہادر بئے کو قتل کر دیا ۔ اور قبیلے کا نیا سردار نور گل یعنی اسلاحان کے شوہر کو لگا دیا۔ اور اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا۔۔

اس سے نمٹ کر سلطان کی فوج کا انتظار کئے بغیر اپنے سپاہیوں کے ساتھ مل کر ارطغرل نے قلعے پر حملہ کر کے فتح کر لیا۔ قلعے کا سربراہ عارس اپنی جان بچا کر بھاگ گیا۔ اور قبیلے پر سلجوک سلطنت اور کائی قبیلے کا پرچم لہرا دیا گیا۔ قلعے میں اپنے بھائی سارن کو نا ئب مقرر کیا۔۔

ہالنی بازار اور قلعے فتح کرنے کے بعد ارطغرل کا ہر جگہ چر چہ ہو گیا۔ ارطغرل سعادلدین کوپک کی سازشوں سے واقف تھا۔ وہ سلطان کو اس سے اگاہ کرنے کونیا چلا گیا۔ ارطغرل نے سعادلدین کے خلاف سلطان کو ثبوت پیش کئے۔ لیکن وہ سازشی اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔

1237ء میں سعادلدین نے سلطان علاولدین اور اس کے جانشین کو قتل کر دیا اور ارطغرل پر الزام لگا دیا۔ اور علاوالدین کے بیٹے سردار غیاث الدین کو قلعے کا سردار بنا دیا۔ اور ارطغرل کو جیل میں ڈال دیا۔ اس کے بعد امیر سعادلدین کا قبضہ ہو گیا۔۔
لیکن جب سردار غیاث الدین کو اس بات کا علم ہوا کہ اس کے باپ کو سعادلدین نے قتل کروایا ہے تو اس نے دوبارہ ارطغرل کو آزاد کر کے قبیلے کا سردار بنا دیا۔

امیر غیاث الدین نے اپنے باپ کے قاتل سعادلدین کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس کام کے لیے ارطغرل کو چنا گیا۔ ارطغرل نے سعادلدین کو قتل کیا اور سلطنت کو دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا کر دیا۔

اس کے بعد ارطغرل سوغوت ہجرت کر گیا۔ سوغوت وہ علاقہ ہے جو سردار علاولدین نے ارطغرل کو تحفے میں دیا تھا۔

آگر آپ کو یہ تحریر اچھی لگی ہو تو دوستوں کے شیر ضرور کریں۔ شکریہ

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!