Betterlife @arbazkhanniazi The diary Game Date 13-06-2021

in hive-104522 •  3 years ago 

IMG_20210613_230139.jpg

اسلام علیکم دوستو کیسے ہیں آپ سب لوگ مجھے امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے دوستو آج صبح جب میری آنکھ کھلی تو موسم بہت خوشگوار تھا اور سب سے پہلے میں نے اٹھ کر ناشتہ کیا اور ناشتہ کرنے کے بعد میں نے ورزش کی ناشتہ کرنے کے بعد جب میں اپنے گھر سے باہر گئے تو میری آج ملاقات اپنے استاد محترم سے ہوئی جن کو میں نے اپنے گھر کی بیٹھک پر بٹھایا اور ان سے گفتگو کی آج ان کی زندگی کا ایک واقعہ شیئر کرتے ہیں انہی کی زبانی

رسول کریم نبی رحیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ کسی کو اپنی سواری پہ بٹھا لینا بھی صدقہ ہے۔آجکل نفسا نفسی کے دور میں جب ہر شخص مصروفیات کے چنگل میں پھنس چکا ہے جس میں وہ خود سے بھی بیزار نظر آتا ہے کسی کو اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل پہ بٹھا لینا معدوم ہوتا جا رہا ہے وہیں اس خوف نے بھی ہمارے دلوں میں جگہ بنا لی ہے کہ کہ کسی انجان شخص کو لفٹ دینا ہمارے لئے کسی خطرے سے خالی نہیں۔
لیکن اس معاملے میں کچھ خوشگوار ترین لمحات بھی ہیں جو میں آپ سب سے شئیر کرنا چاہتا ہوں جنھیں یاد کروں تو آج بھی میرے لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔
ساتویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا۔مئی کے دن تھے۔سکول سے چھٹی کر کے واپس سائیکل پہ گھر آ رہا تھا تو گرمی سے بے حال ایک شخص اور اسکی بزرگ والدہ کو پیدل چلتے دیکھا۔پسینے سے شرابور شخص نے مجھے کہا کہ میری والدہ کو لیتے جاو۔میں نے کہا میں دوسری سواری بٹھا نہیں سکتا۔اس نے کہا میں چلاتا ہوں آپ آگے بیٹھ جاو میں آگے بیٹھنے سے شرما گیا۔اس نے کہا آپ گھر کا پتابتا دو ہم یہ سائیکل آپ کے گھر چھوڑتے چلے جائیں گے آپ پیدل آ جاو۔میری والدہ مزید نہیں چل سکتیں۔میں ڈر گیا کہ امی کو پتا چلا کہ انجان شخص کو سائیکل دے دی تو مار پڑے گی۔لہذا میں نے گھر کی نشانی سمجھائی اور کہا کہ میرے گھر کے پیچھے ٹاہلی کے نیچے میرے سائیکل کھڑی کر دینا میں آ رہا ہوں لے لوں گا۔
اس بزرگ عورت نے میری پیشانی چومی اور وہ میری سائیکل لیکرچلے گئے۔
میں پریشان ہو گیا کہ وہ میری سائیکل بالکل ہی لیکر نہ چلے جائیں۔ڈرتا دعائیں کرتا پسینے میں بھیگتا جب گھر کے قریب پہنچا تو اپنی سائیکل دیکھ کر جان میں جان آئی۔
ایک بار میانوالی سے گھر آتے ہوئے ایک شخص نے مجھ سے لفٹ مانگی میں نے اسے بائیک پہ بٹھا لیا۔اس نے میلہ منڈی سے خریدی ہوئی دو مرغیاں پکڑ رکھی تھیں اور ان کی ٹانگیں کمزور دھاگے سے باندھی تھیں۔میں نے کہا کہ یہ تو کھل جائیں گی، خدا کا کرنا ایسا ہوا پیر پتنگ موڑ پہ ایک مرغی اڑ گئی اسکو پکڑنے کی کوشش میں دوسری بھی پھسل گئی اب تھل کی ریت تھی اور وہ مرغیاں تھیں جو ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں اور ہم تھے جو ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور ساتھ میں خود کو بھی کوس رہا تھا کہ توں تاں ڈے لفٹاں۔
ایک بار کڑکتی دوپہر میں پپلاں پھاٹک کے پاس ایک بزرگ کو چلتے دیکھا میں نے لفٹ کی پیشکش کی جو بابا نے ٹھکرا دی میں نے اصرار کیا تو بابا نے غصے سے میری طرف ہاتھ جوڑ کہ کہا کہ اللہ دا ناں ایا توں میں توں ٹل۔
ہیڈ پکہ کے پاس ایک بزرگ کو بوسکی کی قمیض میں ملبوس سفید تہمند باندھے گاڑی کے انتظار میں کھڑے دیکھا۔میں نے لفٹ کی پیشکش کی جو چاچا نے قبول کر لی۔کندیاں موڑ جا کر میں نے پوچھا چاچا جان کہاں جانا ہے اس نے کہا بیٹا جانا تو میں نے میانوالی تھا لیکن تم نے اتنے پیار سے کہا کہ چاچا جی آنا ہے کہ مجھ سے انکار نہیں ہوا۔
اوہ میرے اللہ کیا کہنے۔
کندیاں المعصوم ہوٹل پہ چائے پی اور پھر چاچا جان کو میانوالی والی گاڑی پہ بٹھایا اور اصرار کے باوجود زبردستی کرایہ ادا کیا۔
اکتوبر 2014 کی بات ہے عمران خان کا میانوالی میں جلسہ تھا رش میں میرا دور کی نظر کا چشمہ گر گیا۔واپسی پہ رات ہو چکی تھی۔ایک شخص نے لفٹ مانگی میں نے اسے یہ کہہ کر بٹھا لیا کہ بھائی میری عینک نہیں ہے تم جاگتے رہنا مجھ پہ نہ رہنا۔پھر کیا ہوا اس شخص نے مجھے راستے میں ان چیزوں سے بھی خبردار کیے رکھا جو سڑک سے کوسوں دور تھیں۔
ایک بار میں چشمہ روڈ سے اپنے لنک روڈ پہ اترا تو ایک شخص کو سامان اٹھائے خانقاہ سراجیہ کی طرف جاتے دیکھا۔اس نے گھر تک پہنچانے کی استدعا کی۔میرا گھر چشمہ روڈ اور خانقاہ سراجیہ کی مین آبادی کے وسط میں ہے لیکن اس نے خانقاہ سراجیہ جانا تھا میں نے گھر کے سامنے سے گزر کر تقریبا دو کلومیٹر آگے اسے اس کے گھر تک چھوڑا تو واپسی پہ ایک طالبعلم نے کہا بھائی مجھے مین روڈ تک چھوڑ دیں میرے پیپر کا وقت قریب ہے میں نے میانوالی جانا ہے۔میں واپسی پہ دوبارہ گھر کے سامنے سے گزر گیا اور اسکو چشمہ روڈ چھوڑا ۔ابھی گھر کے لئے مڑا تھا تو ایک بزرگ نے دوبارہ لفٹ مانگی اور کہا کہ کہ لمبا سفر کر کے آرہا ہے اسلئے اسے خانقاہ سراجیہ اس کے گھر چھوڑا جائے۔میں تیسری بار پھر گھر کے سامنے سے گزر گیا اور ان کو گھر چھوڑ آیا۔جب چوتھی بار گھر کے لئے پلٹ رہا تھا تو میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کیونکہ مجھے وہم تھا کہ پھر کوئی مین روڈ تک لفٹ نہ مانگ لے۔اور اپنی ناں نہ کرنے پہ یقین بھی تھا۔
میانوالی کچہری بازار میں ایک شخص جو میرے ساتھ سوار تھا اسے میں نے کہا آپ اتر جائیں میں آگے نہیں جاتا عید قربان سے دو دن باقی ہیں اسلئے سٹیشن کے عقب میں ٹریفک پولیس چالان کاٹ رہی ہے۔اس نے کہا تم چلو میں جانوں اور ٹریفک پولیس جانے اور پھر میں نے اسی شخص کے توسط سے پہلی اور آخری بار ٹریفک پولیس کے اہلکار سے چائے بھی پی حالانکہ پہلے دور سے روٹ بدل لیا کرتا تھا۔
میلہ منڈی سے شہباز خیل جاتے ہوئے ایک نوجوان کو لفٹ دی۔راستے میں ہمیں ایک بائیک نے کراس کیا جس کی پچھلی سیٹ پہ براجمان ایک بزرگ نے کوئی ٹھیک ٹھاک بھاری بھر کم مشین گن اٹھائی ہوئی تھی میں نے نوجوان کو برملا کہا کہ بھائی بزرگ کی عمر دیکھو اور اسکے کام دیکھو۔وہ مسکرا دیا۔
جب میں نے اسے اس کی بیٹھک کے سامنے اتارا تو وہ مشین گن بردار بزرگ اسی نوجوان کے پہلے ہی منتظر تھے میں نے کہا بھائی آپ اسے جانتے ہو اس نے قہقہہ لگایا کہ یار یہ میرے والد گرامی ہیں تم چائے پیو گے میں نے شرمندگی سے ہنستے ہوئے کہا کہ نہیں مجھے پانی پلا دو۔اس نے میری بات اپنے والد کو بھی بتائی اور اس نیازی روایات کے امین چاچا نے مجھے زور کی جپھی دی کہ پہلے تو نہیں لیکن اب چائے پی کے ہی جانا۔کیا یادگار چائے تھی۔
ان یادوں کا ذکر کرنے سے مقصود یہی تھا کہ ضروری نہیں کہ ہر بار آپ کی جیب کٹ جائے یا آپ لٹ جائیں جب ضمیر گواہی دے دے تو لفٹ دے دیا کریں کیوں کہ کوئی خوبصورت یاد،کوئی خوشگوار چہرہ، کوئی مانوس دعا کوئی انمول رشتہ ، کوئی محبت بھرا احساس صرف آپ کی بریک لگانے کا منتظر ہوتا ہے

Hello friends how are you all i hope you will be well friends this morning when i opened my eyes the weather was very pleasant and first i got up and had breakfast and after breakfast i had breakfast for exercise Later, when I went out of my house, today I met my respected teacher whom I sat on the seat of my house and talked to him. Today we share an incident of his life through his mouth.

Blessed is the saying of Prophet Muhammad (peace be upon him) that it is a charity to take someone on his ride. Nowadays, in the age of narcissism, when every person is caught in the clutches of busyness in which he is disgusted with himself. It seems that getting someone to sit in your car or motorbike is disappearing, while the fear has also taken place in our hearts that giving a lift to an unknown person is not safe for us.
But there are also some of the happiest moments I want to share with you that I still remember putting a smile on my face.
He was a seventh grader. It was May. He was coming home on a bicycle after school. He saw a man and his elderly mother walking, exhausted from the heat. A man, drunk with sweat, told me that my mother Take it. I said I can't get another ride. He said I will drive. You sit in the front. I was ashamed to sit in the front. He said you leave the house. We will leave this bicycle in your house and you will go on foot. Come on. My mother can't walk anymore. I was afraid that my mother found out that if she gave a bicycle to an unknown person, she would be killed. So I explained the sign of the house and said that my bicycle was parked under the tahli behind my house. I will come and take it.
The elderly woman kissed my forehead and they rode my bicycle.
I was worried that they would not take my bicycle with them at all. I was so scared and sweaty when I approached the house.
Once on my way home from Mianwali, a man asked me for a lift and I put him on his bike. He was holding two chickens bought from Mela Mandi and his legs were tied with weak thread. I said that this is it. It will open, God forbid, one hen flew at the turn of the kite, the other slipped in an attempt to catch it, now there was sand in the ground and there were hens running here and there and we were the ones running after them. And at the same time, I was cursing myself for taking the day off.
Once, in a thunderous afternoon, I saw an old man walking near the Paplan Gate. I offered him a lift, which Baba refused. I insisted, but Baba angrily folded his hand towards me and said, "In the name of Allah, I am with you."
Near the headpiece, I saw an old man in a Bosky shirt, wearing a white turban, waiting for a car. I offered him a lift, which my uncle accepted. Turning around, I asked him where he was going. My son, I was a Mianwali, but you said so kindly that Uncle Ji has to come, I was not denied.
Oh my god what can i say
He drank tea at the Kandian Al-Masoom Hotel and then put Uncle John in the Mianwali car and forced him to pay the rent despite his insistence.
It is October 2014. Imran Khan had a meeting in Mianwali. In the rush, my far-sighted eye fell. On the way back, it was night. A man asked for a lift. I sat him down saying that my brother does not have my spectacles. Stay awake, don't stay on me. Then what happened? This man also warned me on the way about things that were far away from the road.
Once I got down from Chashma Road to my Link Road and saw a man carrying his belongings towards Khanqah Sarajia. He requested to be delivered to his house. My house is in the middle of the main population of Chashma Road and Khanqah Sarajia but he I had to go to Serajiya Monastery. I passed in front of the house and left it at his house about two kilometers away. On my way back, a student said, "Brother, leave me to the main road. My paper time is near. I have to go to Mianwali." He passed in front of the house again and left it on Chashma Road. He had just turned for the house when an old man asked for a lift again and said that he was coming after a long journey so he should be left at his house in Sarajia Monastery for the third time. Then he passed in front of the house and left them at home. When I was returning home for the fourth time, my heart was pounding because I had an illusion that no one would ask for a lift to the main road again. I was convinced not to.
I told a man who was riding with me in Mianwali Kachehri Bazaar that you go down, I will not go any further. There are two days left till Eid-ul-Adha, so the traffic police is cutting the challan behind the station. I went to the police and then I drank tea from the traffic police officer for the first and last time through the same person even though I used to change the route from the first round.
On the way from Mela Mandi to Shahbaz Khel, we gave a lift to a young man. On the way, we were crossed by a bike, in the back seat of which an old man was carrying a small, heavy machine gun. Look at his age and look at his work. He smiled.
When I dropped him off in front of his seat, the old man with the machine gun was already waiting for the same young man. I said, "Brother, you know him." He laughed and said, "Dude, this is my dear father. You will drink tea." Laughing, he said, "No, give me some water." He also told my father about it, and the uncle of Amin, who is a follower of this Niazi tradition, urged me not to drink tea first, but to drink it now. What a memorable tea.
Mentioning these memories meant that every time your pocket is not cut or you get entangled, give a lift when your conscience testifies because there is a beautiful memory, a happy face, a familiar prayer, an invaluable relationship. , A feeling of love just waiting for you to break

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!
Sort Order:  

Walekum salam
Dear brother your dariy report is excellent i appreciate your posting

Mashalllah bhai achi diary likhe hy good work Brother

Plagiarism
Plagiarism is the representation of another author's language, thoughts, ideas, or expressions as one's own original work. In educational contexts, there are differing definitions of plagiarism depending on the institution. Wikipedia
image.png