بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم کیا حال ہے سب کا ؟
امید ہے سب ٹھیک ٹھاک ہونگے
چلیں آج کی کہانی کا آغاز کرتے ہیں
کسی ملک میں ایک بادشاہ رہا کرتا تھا وہ خوشی کی تلاش میں تھا بچا تھا کہ اسے خوشی کا فارمولہ مل جائے
وہ خوشی کی تلاش میں ہر جگہ بھٹکتا پھرتا تھا ۔تمام عالم فاضل مولوی ہر کسی سے وہ خوشی کا فارمولا پوچھتا تھا لیکن کسی سے بھی اسے تسلی بخش جواب نہیں ملتا تھا
ایک دفعہ وہ ایسے ہی گھومتا ہوا جنگل میں پہنچا تو وہاں پہ اسے ایک درویش سے ملاقات ہوئی ۔دروازے سے پوچھنے پر اسے پتہ چلا کہ یہ درویش پہاڑ پر موجود ایک بڑی میں رہتا ہے ۔سردی میں درویش کے پاس اور لڑنے کے لیے صرف دو کمبل تھے اور گرمی میں وہ کھلے آسمان کے نیچے بغیر چادر کے سوتا ۔پہننے کے لئے صرف ایک جوڑا تھا ۔جب اسے بھوک لگتی ہے تو وہ جنگل میں جا کر درختوں سے پھل اتار کر کھا لیتا ۔اور جب پیاس لگتی تو ندی ندی اور تالاب سے پانی پی لیتا ۔اس کی زندگی میں سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔پھر بھی درویش بہت خوش تھا ۔
بادشاہ نے درویش سے خوشی کا فارمولا پوچھا کہ مجھے بھی بتاو تاکہ میں بھی خوش رہ سکوں ۔
اس نے بولا کہ یہ جاننے کے لیے تمہیں مجھے اپنے محل میں لے جانا ہو گا میں تمہیں وہاں جا کر بتاؤں گا ۔وہاں جا کر اس نے بادشاہ کو کان میں کچھ بتایا بادشاہ نے منادی کروائی کہ جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہے وہ حاضر ہوں چنانچہ ضرورتمندوں کی کتاب لگ گئی اور ان میں سے ایک ضرورت مند کو چنا گیا ۔
بادشاہ کے بعد کیا کہ حضور حاضر ہوا تو بادشاہ نے اس سے کہا کہ کل کا دن ہے تمہارے پاس تم صبح فجر سے لے کر مغرب تک جتنی بھی زمین پر دائرہ بنا سکتے ہو بنا لو وہ سب زمین تمہارے نام ہو جائے گی ۔لیکن خیال رہے کہ جہاں سے دوڑ شروع کرو گے مغرب تک تمہیں اسی جگہ پر واپس آ کر کھڑے ہونا ہے ۔ضرورتمند راضی ہو گیا اور اگلے دن دور شروع ہوگی
ضرورت مند نے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کیا اس نے سوچا کہ صبح سے لے کر ظہر تک میں آ جاؤں گا اور پھر عصر سے مغرب تک واپسی کے لئے دوڑ لگاؤں گا ۔اس نے دوڑ شروع کی جب وہ زہر تھا کر دوڑ لگاتا رہا تو کاپی ایکڑ زمین اس نے اپنے دائرے میں لے لی اس نے سوچا کہ کیوں نہ کے جاتا رہا اس طرح مجھے زیادہ زمین مل جائے گی اور پھر میں واپس تو چلا ہی جائیگا ۔تو دل میں لالچ آگئی اور یہی لالچ اسے لے ڈوبی ۔
جب واپسی کا خیال آیا تو وقت بہت تھوڑا رہ گیا تھا لیکن اس نے ہارنہ مانی اور وہ دوڑتا رہا دوڑتا رہا یہاں تک کہ جوڑ دو کر کے پھیپھڑوں سے خون نکلنا شروع ہو گیا اس کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا لیکن پھر بھی وہ دوڑتا رہا ۔دوڑتے دوڑتے گر کر مر گیا ۔
تو درویش نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر بولا کہ اس آدمی کے پاس مقام بھی تھا خانے پینے کی چیزیں بھی تیز ضروریات زندگی کے ہر چیز موجود تھی لیکن اس میں تھوڑے کم تھی ۔اگر اس کی زندگی کا موازنہ میری زندگی سے کیا جائے تو یہ مجھ سے لاکھ درجے بہتر زندگی گزار رہا تھا ۔بیبی اگر وہ اپنی عقل سے کام لیتا تو کافی زمین
اپنے نام کروا سکتا تھا لیکن اس کی لالچ اسے لے ڈوبی ۔
خوشی کا تعلق کسی چیز سے نہیں ہے یہ ایک انسان کے ذہنی کیفیت کا نام ہے ۔انسان چاہے تو وہ محدود اور سہولیات سے محروم زندگی میں بھی خوش رہ سکتا ہے
اور اگر انسان مطمئن نہ ہو تو اس کے پاس دنیا جہاں کی دولت بھی ہو پھر بھی وہ خوش نہیں رہ سکتا ۔
یہ کہانی ہمیں سبق دیتی ہے کہ لالچ اور خوشی اکٹھے نہیں رہ سکتی ۔اگر کوئی زندگی میں خوش رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنے دل سے ہر قسم کے لالچ کو نکالنا ہوگا ۔
Kind regards:
@irsaumar
Special thanks
@yousafharoonkhan
@janemorane