The importance of collective cooperation in the development of nations:

in hive-104522 •  4 years ago 

اسلام علیکم دوستوں امید ہے آپ سب اللہ کے فضل سے ٹھیک ہونگے۔ روزمرہ معمول کے مطابق صبح 4:30 پر آنکھ کھولی۔ اٹھ کے وضو کیا اور نماز فجر ادا کی۔ صبح کاموسم آج بھی تھا۔ میں تھوڑی دیر کے لئے چہل قدمی کی۔ اس کے بعد میں گھر واپس آیا۔ تھوڑی دیر آ رام کرنےکے بعد فریش ہوا اور اس کے بعد ناشتہ کیا۔
دوستوں میرا آج کا موضوع بہت اہم اور غور و فکروالا ہے۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔

20210714_190752.jpg

دوستوں اگر ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے دیکھیں تو ہمارا اخلاق اور قومی کردار اس قدر پرست ہو چکا ہے کہ سرے سے کسی اسلامی زندگی کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والا مسلمان وہ ہےجس کی ذات سے دنیا میں بھلائی قائم ہو اور برائی کا خاتمہ ہو۔ اگر اپنے گریبان میں جھانکیں تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بھلائی کو مٹانا اور برائی کو پھیلانا اور پھر اس کے ساتھ مسلمان ہونے کا دعوی درحقیقت ایمان کی کمزوری اور کردار کی پستی ہے۔ ایک شخص مسلمان ہو اور نیکی سے دور بھاگے، برائی کی طرف بڑھے، حرام کھائے اور ناجائز طریقے سے اپنی خواہشات پوری کرے۔ ایک مسلم معاشرے کی اس سے بڑھ کر کیا ذلت ہوسکتی ہے کہ انصاف سے خالی اور ظلم سے لبریز ہوتا چلا جائے۔ برائیاں بڑھتی اور بھلائیاں ختم ہوتی جائیں۔ انسان کے اندر دیانت اور شرافت کے پھلنے پھولنے کے مواقع کم ہوتےجائیں۔ اگر کسی معاشرے کی یہ حالت ہو جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ معاشرہ اسلام کی روح سے خالی ہوچکا ہے۔ درحقیقت کسی قوم کا کردار ہی اس کی شناخت ہے۔ جب ہم کسی قوم کے متعلق رائے قائم کرتے ہیں تو اس کے اجتماعی کردار کو پیش نظر رکھ کر ہی کرتے ہیں۔

20210714_223024.jpg

دنیا کی تمام قومیں عروج و زوال کی منازل طے کر کے گزرتی ہیں اور اس کی بنیاد ان کا اجتماعی کردار ہی ہوتا ہے۔ اگر اعلی اور پاکیزہ ہو تو ترقی کرتی ہے لیکن کمزور اورناقص کردار کی حامل قوم کو زوال کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ ایک تاریخ کا سکھایا ہوا سبق ہے کہ جن قوموں نے زندگی کی صالح اور اچھی قدروں اور اعلی معیارکو چھوڑ دیا وہ زوال پزیر ہوئیں اور کن قوموں نے اعلی کردار کا ثبوت دیا اور صحت مند اصولوں پر قائم رہیں وہ کمال عروج کو پہنچیں۔کمزور اقوام کبھی ناکامی سے نہیں بچ سکتیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اعمال کا نتیجہ سامنے آ کر رہتا ہے اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا نتیجہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک تمام اقوام اور افراد برابر ہے کسی کو دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے اگر کسی کو کوئی فوقیت حاصل ہے تو وہ صرف ایمان اور کردار کی بنا پر ہے ۔

20210714_223216.jpg

میں مشورہ دوں گا کہ سب سے پہلے ہم خود اپنی حالت کا جائزہ لیں اور اپنے قومی کردار پر نظر ڈالیں اور خلوص اور سچائی کے ساتھ یہ جائزہ لیں کہ ہم کہاں تک کامیاب ہو سکے ہیں تو یقینا ہم خسارے میں نہیں رہیں گے۔

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!
Sort Order:  

Walekum salam
Bhot achi post likho Hy ap

تعریف کرنے کا بہت شکریہ

Bht achi dairy likhty hyn ap

حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ

Very nice post you made today

آ پ کا بہت شکریہ بھائی

Bhai apki her post achi hoti hai.

Apki meherbani janab.

ھمارے معاشرے کی سب سے بڑی بد قسمتی بھی یہی ہے کہ ھم کوئی کام خلوص اور سچے دل سے کرتے نہیں

آ پ نے بجا فرمایا۔

بھائی جان یہی افسوسناک بات ہے کہ ہم دوسروں کی کردار کشی کرتے ہیں اور اپنے اندر نہیں جھانکتے

یہ بھی معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزرتے لیکن دوسروں کی اصلاح کرنےکے خواہشمند ہوتے ہیں۔