ایک معصوم بچے کی دردناک کہانی۔

in hive-104522 •  2 years ago 

السلام علیکم

پیارے دوستو امید ہے کہ آپ سب لوگ خیریت سے ہوں گے اور اپنے اچھے زندگی کو اچھے طریقے سے گزار رہے ہوں گے آج میں آپ لوگوں کے ساتھ ایک کہانی شیئر کرنے جا رہا ہوں جو بہت ہی دردناک کہانی ہے یہ کہانی ایک بچے کی ہے جس کی عمر لگ بھگ تیرہ سال ہے۔

IMG_20230128_204625.jpg

IMG_20230128_204610.jpg

IMG_20230128_204551.jpg

یہ نہیں معلوم کہ پہلا تھپڑ کس نے مارا تھا۔ یہ
بھی نہیں معلوم کہ کس کے زہریلے لفظ سب سے پہلے وجود کو چیرتے ہوئے گزرے تھے مگر یہ معلوم ہے کہ اس بچے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں تھی کہ اس کی اس طرح تذلیل کی جاتی۔ سرِ بازار اس پہ چوری کا الزام لگایا جاتا۔

اسے کسی نے ایک دکان سے نکلتے دیکھا تھا، جہاں دکان دار موجود نہیں تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پرفیوم اور گھڑی تھے۔ کسی نے اس سے وضاحت نہیں مانگی ، اسے صفائی کا موقع نہیں دیا بس اس پہ چوری کا الزام لگا کر سب نے اسے پکڑ لیا تھا۔ اور پھر اسے پکڑتے ہی سب کو اپنی اپنی دکانوں سے گم ہوئی پرانی چیزیں بھی یاد آنے لگیں۔ پھر کوئی ثبوت ڈھونڈے بغیر سب اپنی اپنی دکانوں سے گم ہوئی چیزوں کی چوری کا الزام اس پہ لگاتے گئے۔ کیوں کہ الزام لگانا کون سا مشکل ہے ، مشکل تو الزام کو ثابت کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں تو بس الزام لگانا ہی کافی ہوتا ہے ، ثابت کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ سب جوانوں بوڑھوں نے بھرے بازار میں اس بچے پہ کی جانے والی مار پیٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

پولیس کو بلایا گیا ، اس چھوٹے بچے کو کسی عادی مجرم کی طرح تھانے لے جایا گیا۔ اس کا گریبان کسی کے ہاتھ میں تھا تو قمیض کا پلو کسی کے ہاتھ میں۔ سب لوگ اس پہ تھو تھو کر رہے تھے ۔ بڑھتے الزامات کے ساتھ تذلیل بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن کسی کو پرواہ نہیں تھی کہ اس بچے پہ کیا گزر رہی ہے ، یا اس بچے کی آنے والی زندگی پہ یہ سارا منظر کتنا اثرانداز ہو گا۔ سب لوگ بس تماشے کا حصہ بنے اس تماشے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔

بچے کا باپ تھانے آیا تو ایک ایک الزام لگانے والے کو اس کے ہر نقصان کا ازالہ کرنے کا وعدہ کرتا گیا۔ کوئی ثبوت نہیں مانگا بس ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ سب کی منت ترلے کر کے ان لوگوں سے اور پولیس سے جان چھڑا کر سر جھکائے بیٹے کو ساتھ لے گیا۔ تماشہ ختم ہوا تو سب نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ سب کے سینے تنے ہوئے تھے، سر فخر سے بلند تھے کہ ہم نے ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ دن گزرا ، شام ڈھلی اور سب اپنے اپنے بستر پہ چین کی نیند سو گئے۔

لیکن وہ بچہ جس کی بھرے بازار میں تذلیل کی گئی ، جسے سرعام زد و کوب کیا گیا اس کے بارے میں کون سوچتا۔ جب سب لوگ فخر سے سر بلند کیے جا رہے تھے تو وہاں سے سر شرم سے جھکا کر جانے والے کی پرواہ کسے تھی۔ سب سو گئے لیکن وہ بچہ کیسے سوتا ؟

اسے معلوم تھا کہ یہ تذلیل اب ساری عمر سہنی ہو گی ، یہ داغ ہمیشہ ماتھے کا کلنک بنا رہے گا۔ میرے ماں باپ میری وجہ سے سب سے نظریں چراتے پھریں گے۔ بستر پہ کروٹیں لیتا وہ بچہ کیسے سو جاتا۔ وہ لمبی رات اس بچے نے کس تکلیف میں گزاری ہو گی ، اس کا اندازہ کیسے کرے کوئی ؟

صبح ماں ناشتے پہ بلاتی ہے لیکن بچہ ناشتے کی ضرورت سے آگے بڑھ چکا ہے۔ وہ ناشتہ کرنے کے بجائے گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔ ماں آوازیں دیتی ہوئی پیچھے آتی ہے۔ بچہ دریا کے پل پہ چڑھ جاتا ہے۔ ماں آوازیں دے رہی ہے مگر بچے کو اپنے جسم پہ لگی کالک دھونی ہے۔ وہ پل سے دریا میں چھلانگ لگاتے ہوئے پلٹ کر ماں کی طرف دیکھتا ہے ، الوداعی ہاتھ ہلاتا ہے اور اس سے زیادہ اسے مہلت ہی نہیں ملتی۔ اس کا جسم دریا کے یخ پانی میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ ماں چیختی ہوئی بیٹے کی طرف بھاگتی ہے ، اس کا بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے جان کی بازی ہار رہا ہے ، اسے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہا ہے مگر وہ اسے بچا نہیں سکتی۔ اس کے بیٹے تک پہنچنے سے پہلے ہی دریا کی تیز موجیں بچے کے جسم کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہیں۔

سب بچے کے بے جان لاشے کو ڈھونڈنے میں مگن ہیں اور کسی کو خبر نہیں کہ بچے کے تکیے کے نیچے اپنی بہن کے نام ایک چھوٹا سا پیغام درج ہے

Sorry My sister i love you

یہ کوئی فرضی قصہ نہیں ، کوئی افسانہ نہیں۔ چند دن پہلے پیش آنے والا ایک سچا واقعہ ہے۔ بچے کا نام تنویر ضیاء تھا۔ بچے کا باپ ان سب دکانداروں کے خلاف مقدمہ درج کروا چکا ہے جو چوری کا الزام لگانے میں پیش پیش تھے۔ لیکن اب اس سب سے کیا حاصل ؟

ہمیں تو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے لفظ کتنے ظالم ہو سکتے ہیں، کتنا گہرا اثر کر سکتے ہیں۔ ہم تو بس کہہ دیتے ہیں اور کہنے والے کا تو کچھ نہیں جاتا۔ سہنے والے پہ جو بھی گزرے وہی جانے۔ ہمیں کسی پہ الزام لگاتے ہوئے کوئی ثبوت نہیں چاہیے ہوتا ، بس شک ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ ہمیں کسی کی تذلیل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہمیں تو بس اپنا شملہ بلند رکھنا ہے۔

اللہ حافظ

Special Mention

@yousafharoonkhan | @urducommunity

Regards:@tayyabshafiq187

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!
Sort Order:  

Thank you, friend!
I'm @steem.history, who is steem witness.
Thank you for witnessvoting for me.
image.png
please click it!
image.png
(Go to https://steemit.com/~witnesses and type fbslo at the bottom of the page)

The weight is reduced because of the lack of Voting Power. If you vote for me as a witness, you can get my little vote.