جنگ یمامہ
مسیلمہ کذاب کے دعویٰ نبوت کے نتیجے میں لڑی گئی جس میں 1200 صحابہ کرام شہید ہوئے اور اس فتنے کو مکمل مٹا ڈالا
خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ خطبہ دے رہے تھے:
لوگو! مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے،اہل بدر ہوں یا اہل احد سب یمامہ کا رخ کرو"
بھیگتی آنکھوں سے وہ دوبارہ بولے:
مدینہ میں کوئی نہ رہے حتی کہ جنگل کے درندے آئیں اور ابوبکر کو گھسیٹ کر لے جائیں"
صحابہ کرام کہتے ہیں کہ اگر علی المرتضی سیدنا صدیق اکبر کو نہ روکتے تو وہ خود تلوار اٹھا کر یمامہ کا رخ کرتے۔
13 ہزار کے مقابل بنوحنفیہ کے 70000 جنگجو اسلحہ سے لیس کھڑے تھے۔
جنگ یمامہ وہ جنگ تھی جس کےمتعلق اہل مدینہ کہتے تھے:
بخدا ہم نے ایسی جنگ نہ پہلے کبھی لڑی نہ بعد میں لڑی
اس سے پہلے جتنی جنگیں ہوئیں بدر احد خندق خیبر موتہ وغیرہ صرف 259 صحابہ کرام شہید ہوئے۔ ختم نبوت ﷺ کے دفاع میں 1200صحابہ کٹے جسموں کے ساتھ مقتل میں پڑے تھے۔
اے مسلمانو! تمہیں پھر بھی ختم_نبوتﷺ کی اہمیت معلوم نہ ہوئی۔
انصار کا وہ سردار ثابت بن قیس جس کی بہادری کے قصے عرب و عجم میں مشہور تھے اس کی زبان سے جملہ ادا ہوا:
اےالله! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں"
چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب وہ اکیلا ہزاروں کے لشکر میں گھس گیا اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہ بچی جہاں شمشیر و سناں کا زخم نہ لگا ہو۔
عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے بھائی۔۔زید بن خطاب جو اسلام لانے میں صف اول میں شامل تھا اس نے مسلمانوں میں آخری خطبہ دیا:
والله! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہ کروں گا جب تک کہ انہیں شکست نہ دے دوں یا شہید نہ ہو جاؤں"
اے مسلمانو! تمہیں پھر بھی ختم نبوتﷺ کی اہمیت معلوم نہ ہوئی ۔
بنو حنفیہ کا باغ "حدیقۃ الرحمان میں اتنا خون بہا کہ اسے حدیقۃ الموت کہا جانے لگا، اس باغ کی دیواریں مثل قلعہ کے تھیں
کیا عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ ہزاروں کا لشکر ہو اور براء بن مالک کہے:
"اے مسلمانو! اب ایک ہی راستہ ہے تم مجھے اٹھا کر اس قلعے میں پھینک دو میں تمہارے لئے دروازہ کھولوں گا"
اس نے قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کر منکرین ختم نبوت کے اس لشکر جرار کو دیکھا اور پھر تن تنہا اس قلعے میں چھلانگ لگ دی
قیامت تک جو بھی بہادری کا دعوی کرے گا یہاں وہ بھی سر پکڑ لے گا!!
*ایک اکیلا شخص ہزاروں سے لڑ رہا تھا ہاں اس نے دروازہ بھی کھول دیا اور پھر مسلمانوں نے منکرین ختم نبوت کو کاٹ کر رکھ دیا
اے مسلمانوں! کاش کہ تم جان لیتے کہ تمہارے اسلاف نے اپنی جانیں دے کر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا دفاع کیا ہے۔۔۔۔
کاش تمہیں رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ان صحابہ کے جذبوں کا علم ہوتا جو ایک مٹھی بھر جماعت کے ساتھ حد نگاہ تک پھیلے لشکر سے ٹکرا گئے۔۔
قادیانیت ایک بہت بڑے فتنے کی صورت میں نمودار ہے، پس ہر صاحب ایمان کے ذمے ہے کہ وہ اس کے سدباب کی کوششوں میں شریک ہو. اے مسلمانو، تحفظ ختم نبوت کے جہاد میں اپنا اپنا کردار ادا کرو تا کہ قیامت کے دن خاتم النبیین صلى الله عليه وسلم کی شفاعت نصیب ہو-
آخر میں آپ سے التماس ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس داستان عشق وقربانی کو تمام مسلمانوں کے سامنے رکھنے کی غرض سے اس تحریر کو آگے منتقل کرنے کےلئے اپنا کردار ادا کریں۔
سبحان اللہ