بدگمانی سے بچیں
بدگمانی ایک برا خیال ہے۔کیونکہ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ کوئی بھی کام غلط کرتے ہوئے اپنے آپ کو حق کی زمین پر سمجھتا ہے۔ کیونکہ وہ فیصلہ وہ اپنے دل سے لیتا ہے جو دل کو اچھا لگے، وہ اچھا ہے اور جو دل کو برا لگے، وہ برا ہے ہے۔ جو بھی انسان کسی کے بارے میں برا خیال اپنے دل میں رکھتا ہے۔اور پھر سوچتا رہتا ہے ہے یہ حق نہیں ہے نا حق کام
ہے۔ اگر وہ خود کرے گا وہ اپنی زندگی برباد کرے گا ویسے بھی کسی کے بارے میں برا خیال ہے یہ محض خیال نہیں ہے یہ آگ ہے اور یہ آگ بڑھتی ہے۔ اور زندگی میں بھی آگ لگ جاتی ہے بد گمانی کی وجہ سے جو انسان کے دل کو آگ لگتی ہے وہ جہنم کی آگ ہے۔ کسی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ دوسروں کو برا سمجھو۔
جب ہم کسی کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں ۔تو یہ ایک برا گمان ہے برا خیال ہے بہت زیادہ گمان سے ہی بچنا چاہیے کیونکہ
کسیی بھی عمل کی ابتدا گمان سے ہوتی ہے پہلے وہ سوچ اور پھر عمل میں ڈھل جاتی ہے۔ اور عمل ہی انسان کا معاشرے میں اچھی پہچان ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ بہت زیادہ گمان سے بچیں کیونکہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں۔
بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہوتی ہے۔ بدگمان اور بد زبان ی انسان جو ہے وہ پوری زندگی چین سے نہیں رہتا۔
جس معاشرے کی سوچ اچھی ہوتی ہیں صحت مند ہوتی ہیں وہ معاشرے پروان چڑھتے ہیں اور اچھی سوچ اچھا خیال ہی آپ کی زندگی کو خوبصورت بنا تا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
بد گمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔
اور لوگوں کے رازوں کی ( کھود کرید نہ کیا کرو)۔ اور نہ (لوگوں کی نجی گفتگو) کو کان لگا کر سنو۔آپس میں دشمنی پیدا نہ کرو بلکہ بھائی بھائی بن کر رہو۔
صحیح بخاری ) 514)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بد گمانی جیسے برے فعل سے بچائے۔(آمین)