اللہ کے شکر گزار بندے بنیں
ہمیں ہر حال میں اللہ ربّ العزت کا شکر ادا کرنا چائیے۔ جو
نعمتیں اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہیں ہم انکا شمار تک نہیں کرسکتے۔ انسان بنانا اور مسلمان گھرانہ میں پیدا کرنا،حضور ﷺ کا امُتی ہونا، عقل سلیم کے ساتھ تمام جسمانی اعضاء دینا، یہ وہ نعمتیں ہیں جسکا شکر ہم تمام عمر سجدہ میں بھی پڑے رہیں پھر بھی ادا نہیں کر سکتے۔ لیکن انسان بڑا جلدباز اور نا شکرا ہے، ذرا سی تکلیف برداشت نہیں ہوتی، صبر نہیں ہوتا۔تکلیف ، بیماری یا پریشانی کے وقت یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ’ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے‘ یہ بہت بڑی ناشکری ہے۔ کیا یہ اللہ کا کرم نہیں ہے کہ اس نے ہمیں صحت و تندرستی، مال و جائیداد، عقل و علم، اہل و عیال، عزت و شان کے ساتھ زندگی کا اعلی معیار دیا ہے، یہ سب جس اللہ کا دیا ہوا ہے جو ہماری آزمائش کیلئے ہے اگر اللہ اس میں سے کچھ لے لیتا ہے تو نا شکری کیوں ؟ اللہ سے شکایت اور نافرمانی کیوں؟
اگر کوئی نعمت نہیں ملی ہے یا اللہ نے دیکر واپس لے لی ہے تو اس پر بھی اللہ کا شکر بجا لانا چائیے۔ کیوں کی یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ اس چیز کے نہ ہونے میں ہی ہمارے لئے خیر ہے، ہمیں اللہ سے اسکا خیر و فضل و کرم مانگتے رہنا چاہیے۔ اللہ نے زمین و آسمان میں تمام چیزیں ہمارے لئے پیدا کی ہیں ، سورج ، چاند، ستارے، ہوا، پانی، چرند، پرند، سبزی، پھل، گرمی، سردی، بہار و خزاں، غرض ہرچیز انسان کے فائدے کے لئے بنائی ہے۔ ہماری ناشکری کی انتہا یہ ہے کہ جب ہمیں کوئی چیز یا مقام ملتا ہے تو ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ ہماری ذاتی محنت اور عقل سے حاصل ہوا ہے اور جب اسمیں ذرا سی کمی ہوتی ہے تو رونے چلانے لگتے ہیں اور اللہ سے اس کے چھن جانے کا گلہ کرتے ہیں۔اللہ کے شکر گزار بندوں کو جب کوئی نعمت ملتی ہے تو الحمدللہ کہتے ہیں۔ الحمدللہ کے معنی ہیں کہ صرف اللہ کا شکر ہے اس کے علاوہ کوئی اسکے لائق نہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے ’ جب تم الحمدللہ کہتے ہو تو اللہ کا شکر یہ ادا کرتے ہو اسپر اللہ تمہیں برکت دیگا‘ صرف الحمدللہ کہنے کی توفیق دینا بھی اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالی ہمیں یہ توفیق عطا کرے اور شکر گزار بندہ بنائے۔ آمین۔
شکرگزاری کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی زیادہ سے زیادہ عبادات کی جائیں اور ہر وقت اللہ کے ذکر میں رطب اللسان رہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سورت الزمر آیت ۷ میں فرمایا ہے ’ اور اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لئے پسند کرتا ہے‘ اور بھی کئی جگہوں پر قرآن میں اللہ نے انسان کو شکرگزار بننے کی تلقین کی ہے اور کہا ہے اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں اور زیادہ نوازوں گا۔ ہمیں اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہنا چاہئیے، اس طرح بھی شکر ادا ہوتا ہے۔ ہماری ستم ضریفی یہ ہے کہ مصیبتوں کا تذکرہ توکرتے ہیں لیکن نعمتوں کا ذکر نہیں کرتے۔ ‘۔ ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا چار چیزیں جس کو مل گئیں اسنے خیر پالیا،
۱۔ شکر گزار دل، ۲۔ ذکر کرنیوالی زبان، ۳۔صابر بدن اور ۴۔ نیک بیوی۔
دو عادتیں جس انسان میں پائی جائیں وہ صابر وشاکر کہلاتا ہے، جو دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھے اور دنیاوی لحاظ سے اپنے سے نیچے والے کو ۔
اللہ تعالی کی نعمتوں کو جھٹلانا، ہر کسی سے گلہ شکایت اور بیجا تقاضے کرنا اور اللہ کی نعمتوں کو بلا وجہ چھپانا بھی ناشکری ہے۔ ناشکری کی سزا ہر حال میں ملتی ہے۔ جب انسان کے اندر اللہ کی شکر گزاری پیدا ہوتی ہے تو اسکے اندر عاجزی اور انکساری بھی پیدا ہوتی ہے اور وہ اللہ کے احسانات پر شکریہ کے ساتھ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کرتا ہے اور انسے محبت اور خدمت کا جذبہ اجاگر ہوتا ہے۔
اللہ ہم گناہگارہوں کو ناشکری سے محفوظ رکھے اور ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی رکھے۔ آمین۔
ارشادِ خداوندی ہے کہ اگر تم نے شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور ذیادہ دوں گا اگر تم نے یقین جانو نہ شکری کی تو میرا)اللہ ( کا عذاب بڑا سخت ہے ہے.
ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں اور ناشکری سے بچیں۔کیوں کہ ناشکری غم اور بے سکونی کو کھینچ لاتی ہے۔
جبکہ شکرگزاری نعمتوں ،راحتوں اور خوشیوں کا سبب بنتی ہے ۔
شکریہ