(اسلام سے پہلے عورت کی حالت)
علامہ نووی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پہلے باب میں بیان فرمایا ہے یعنی ان نصیحتوں کے بارے میں جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق سے متعلق بیان فرمائی ہیں۔
اور سب سے زیادہ بے خیالی اور سب زیادہ کوتاہی اس حق میں ہوتی ہیں۔
جب تک اسلام نہیں آیا تھا،اور جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نہیں آئی تھیں، اس وقت تک عورت کو ایسی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔
جو معاذ اللہ گویا انسانیت سے خارج ہے اور اس کے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک ہوتا تھا، اس کو انسانیت کے حقوق دینے سے لوگ انکار کرتے تھے۔
کسی بھی معاملے میں اس کے حقوق کی پرواہ نہیں کی جاتی تھی۔
اور یہ سمجھا جاتا تھا جیسے کسی نے اپنے گھر میں بھیڑ بکری پال لی ہے۔
بالکل اسی طریقے سے اپنے گھر میں ایک عورت کو لاکر بیٹھا دیا، سلوک کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار اس دنیا کو جو آسمانی ہدایات سے بےخبر تھی، خواتین کے حقوق کا احساس دلایا کہ خواتین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔
قرآن کریم میں بھی کئی آیتیں ہیں جو عورتوں کے حقوق کو بیان کرتی ہیں۔
ایک آیت میں ہے کہ "وعاشروهن بالمعروف"
اس میں تمام مسلمان خطاب ہے کہ تم خواتین کے ساتھ "معروف" یعنی نیکی کے ساتھ، اچھا سلوک کرکے زندگی گزارو، اُن کے ساتھ اچھا معاشرت برتو، اُن کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔
یہ عام ہدایت ہے۔
جزاک اللّہ۔