(حرص و طمع)
جب بھوک پیاس گرمی سردی ستاتی ہے تو انسان کو خواہش ہوتی ہے کہ ان تکلیفوں کو دور کرکے آرام حاصل کرے، اگر یہ خواہش نہ ہوتی تو زندگی دشوار ہو جاتی۔
اکثر ہوتا ہے کہ آدمی صرف تکلیفوں کے دور کرنے کے پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنی خواہش کو حاجت سے زیادہ بڑھا دیتا ہے خواہش کا حد بڑھنا حرص و طمع کہلاتا ہے۔
حریص آدمی کو آرام اور اطمینان کم نصیب ہوتا ہے جس قدر عیش کا سامان بڑھتا ہے حرص و طمع بھی بڑھتی جاتی ہے، وہ ہمیشہ محتاج ہی رہتا ہے، کبھی خدا کا شکر نہیں کرتا۔
حریص آدمی اپنی خواہشوں کا غلام ہوتا ہے، وہ لالچ میں اندھا بن جاتا ہے کہ انجام کو نہیں سوچتا، وہ اوروں کی حق تلفی کرتا اور اپنا بھلا چاہتا ہے۔
جو آدمی حریص و طامع ہوتا ہے وہ دوسروں کی مدد بھی کم کرتا ہے، اس لیے اس کے دوست کم ہوتے ہیں، وہ اوروں کو خوشحال دیکھ کر جل مرتا ہے۔
اُن کی بدخواہی کرتا ہے، بدخواہی سے عداوت اور عداوت سے ہزار طرح کے فساد ہوتے ہیں، اس لئے اس کا وقت جھگڑے بکھیڑے میں تلف ہوتا ہے، اتنی فرصت نہیں پاتا کہ کچھ کمال حاصل کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حرص و طمع سے بچائے، آمین۔
جزاک اللّہ۔