قسط نمبر 1
وہ ایک بار پھر اس کی نظروں کے حصار میں تھی ... ایک بار پھر اسے لگا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے ... ضرور کہیں آس پاس ہی تھا ... پرفیوم کی وہی ایک مخصوص خوشبو اس کے چاروں طرف بکھری ہوئی تھی ...
"اف ...!!! نہیں ...!!!" اس نے دونوں ہاتھ آپس میں مسلے...
آنکھیں بند کر کے ایک لمبی سانس لی ... لیپ ٹاپ پہ تیزی سے چلتی انگلیاں رک گئیں تھیں ... اس نے سکرین سے نظریں نہیں ہٹائیں ... ذہن نے کام کرنا بند کر دیا تھا ... وہ ایک بات پھر سوچنے پہ مجبور ہو گئی تھی ...
"کون ہے یہ ...!!! کیا چاہتا ہے ...!!! کیا ہر وقت میرا پیچھا کر رہا ہے...کیوں کر رہا ہے آخر...؟"
ذہن میں بہت سارے سوال گردش کر رہےتھے ... لیکن جواب ایک کابھی نہیں تھا ... وہ اور الرٹ ہو کے بیٹھ گئی ... بہت آہستہ سے نظریں اٹھا کے اس سمت دیکھاجہاں اسے احساس تھا کہ وہ بیٹھا ہوا ہے ... اور وہ وہیں تھا ...نظروں کےبالکل سامنے ... کچھ فاصلے پر ... چاروں اطوار سے بے خبر ... اپنے آپ میں مگن ... ہمیشہ کی طرح ایک ہاتھ میں موبائل ... دوسرے میں کافی کا مگ ... سنجیدگی سے نیوز پیپر پہ نظریں جمائےہوئے ... وہی جینز اور وہی ڈریس شرٹ...
اس نے کبھی اس بات کا احساس نہیں دلایا تھا کہ وہ اس کے پیچھے ہے ...کبھی نظر اٹھا کے دیکھا بھی نہیں تھا ... نہ کبھی بات کرنے کی کوئی کوشش ... کچھ بھی تو نہیں ... پر پچھلے چارمہینوں سے اسے یہ بات شدت سے محسوس ہو رہی تھی ... کہ وہ جہاں بھی جاتی ہے وہ وہاں ضرورنظر آتا ہے ...
پہلے پہل تو اس نے اس بات پہ کوئی خاص دھیان نہیں دیا ... بس ہر جگہ ایک نظر کا حصار محسوس ہوتا تھا ... پھر اس نے سامنے آنا شروع کر دیا ... جب بھی اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ... وہ کہیں نہ کہیں آس پاس ہی ہوتا ... وہ ایک مخصوص پرفیوم لگاتا تھا ... جسکی خوشبو اس کی موجودگی کا پتہ دیتی تھی ...
بارش شروع ہو گئی تھی ... پتا نہیں یہ زری کہاں غائب تھی ... اس نےچاروں طرف نظر گھما کے دیکھا ... تو زری سامنے سے آتی دکھائی دی ... ہاتھ میں کھانے کی ٹرے ... تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی ... آ کےدھپ سے کرسی پہ بیٹھی ...
"یار میں نے سوچا کہ تھوڑی پیٹ پوجا بھی ہو جائے ... آخر دماغ کو بھی تو کچھ فیول کی ضرورت ہے ... پر یہ بارش شروع ہو گئی ہے ... کیا کریں ...؟" اس نے آسمان کی طرف ديکھ کہ کہا ...
"ہاں یہاں سے نکلنا ہو گا ... ماما بھی ناراض ہوں گی کہ آج پھر اتنی دیر کر دی ... یہ نوٹس سبمٹ کروانے میں ابھی ایک ہفتہ اور ہے ... میں ٹائم نکال کے ختم کر لوں گی ... لیٹس پیک اپ ... اس نے ایک نظر زری پہ ، اور دوسری اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے شخص پہ ڈالی ... ساتھ ساتھ دونوں کے ہاتھ بھی تیزی سے چل رہے تھے ...کھانا اور لیپ ٹاپ پیک کر کے وہ یونیورسٹی کے سامنے والے کیفےٹیریا سے باہر نکلیں ... اس کی گاڑی سامنے پارکنگ میں تھی ... بارش اب زور پکڑ گئی تھی ... ہر طرف جل تھل تھا ...
"آج سے مزید تین دن تک بارش کی فورکاسٹ ہے ... یہ تو اب نہیں رکتی ..." اس نےآسمان کی طرف دیکھ کے زور سے بولا اور گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی ... زری بھی ہنستے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے ہی تھی ...
گاڑی کا لاک کھولتے ہوئےاس نے پھر مڑ کے کیفےٹیریا کی طرف دیکھا ... وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا ... نیوزپیپرکوسرپہ رکھ کر بارش سے بچتے ہوئےاس نےبھی اپنی گاڑی کی طرف تیزتیزقدم اٹھانے شروع کیے ... گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بھی وہ اسی کو دیکھ رہی تھی ... زری نےاس کی نظروں کے تعاقب میں اپنی نظریں دوڑائیں ... اور چیخ پڑی ...
"یہ ... !!! یہ ... !!! یہ... !!! يہ بھی تھا یہاں ...تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ... تم اس کی وجہ سے کیفےٹیریا سے اٹھی ہو...!!!" زری مستقل بول رہی تھی جب کہ اس کی نظریں ابھی بھی روڈ پہ ہی جمی ہوئی تھیں ...
پارکنگ سے ایک بلیک ہنڈا آکارڈنکلی ... اس کےسامنے سے گزر کے کسی گلی میں غائب ہو گئی ...
"اوین...!!! تم سن رہی ہو میں کیا پوچھ رہی ہوں ... ؟" زری پھر چلآی تھی ...
"ہاں سن رہی ہوں ... بولو کیا بات ہے ...؟" اس نے گردن موڑ کے زری کی طرف دیکھا ...
"یہ وہی تھا نا ...؟"
"ہاں ... وہی تھا ...!!!" اس نے گاڑی اسٹارٹ کی ...
"پھر ...؟"
"کیامطلب پھر ...؟" وہ حیران ہوئی تھی ...
"مطلب تم نے اس سے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے بھئی ... کیوں پیچھا کر رہے ہو ... ؟" اوین نے بیک مرر سے دیکھتے ہوئے موڑکاٹا ...
"اس نے تو کبھی نہیں کہا کہ میرا پیچھا کر رہا ہے ..."
"پر تم کو شک تو ہے نا کہ تم جہاں جاتی ہو وہ وہاں موجود ہوتا ہے ..." زری نے ریپر سے برگر نکالا...
"شک نہیں یقین ہے ...سو فیصد یقین ... "
"مجھے پہلے پتا ہوتا کہ وہ یہیں ہے تو میں ہی پوچھ لیتی ..."
"کیا پوچھ لیتیں تم ... ؟" اوین نے اس کی طرف دیکھ کے بولا ...
"بھئی ... میں پوچھتی کہ بھائی صاحب کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ آخر ... ؟ کون ہیں آپ ... ؟ سپر مین ...؟ اسپائیڈر مین ...؟ ہٹ مین کہ بٹ مین ...؟ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ... کچھ اتا پتہ تو دیں ...کوئی رومیو ... مجنوں ... فرہاد یا رانجھے کے خاندان سے تو تعلق نہیں آپ کا ... آخر کیا وجہ ہے جو آپ چار مہینوں سے فالو کر رہے ہیں ...؟"
زری منہ میں برگر کے بڑے بڑے بائٹ لے کے غوں غوں کرنے لگی ... اوین نے ایک نظر زری پہ ڈالی ...
"ایسے پوچھو گی اس سے ... منہ میں برگر ٹھونس کے ... ؟"
زری نے گردن نفی میں ہلائی اور ہنستے ہوئے بولی ...
"نہیں ... سارا برگر ختم کر کے پوچھوں گی ..." اوین بھی اس کی شکل دیکھ کے ہنس پڑی ...
"کارٹون لگ رہی ہو بالکل ... کوئی بول سکتا ہے کہ ایم.اے فائنل کی اسٹوڈنٹ ہو ..."
"کیوں ...؟ ایم.اے فائنل والے برگر نہیں کھاتے کیا ...؟" زری نے حيرت سے اوين کو ديکھا ...
"کھاتے ہیں پر ساتھ ساتھ بات تو نہیں کرتے ... "
"رہنے دو بس ... یہ اپنے ایلیٹ کلاس کے مینرز اپنے پاس ہی رکھو ... مجھے کھانے پینے کے آداب نہ سکھاؤ ... برگر کھانے کا بس ایک ہی طریقہ ہے ... خوب مزے سے کھاؤ ، چٹنی لگا کے ..." زری نے مسکرا کے اوین کو دیکھا ...
" گھر میں کسی کو بتایا ہے کیااس بندے کے بارے میں ...؟" اس نے پھر برگر کابائٹ لیا ...
"کیا بتاؤں ...؟ کوئی پریشانی والی بات ہو تو بتاؤں ... وہ بس مجھے اکثر نظر آتا ہے پر کبھی کوئی غلط حرکت ... یا کوئی غلط بات تو نہیں کی ... یہاں تک کہ نظر اٹھا کے تو دیکھا نہیں آج تک ..." اوین نے سوچتے ہوئے کہا ...
"پاپا کو بتاؤں گی تو وہ اس کے پیچھے اپنے جاسوس لگا دیں گے ... بھائی جان پریشان ہوں گے اور ماما ... " وہ ہنسی تھی ...
"ان کو تو ایک اور وجہ مل جائے گی میری شادی جلدی کروانے کی ... سوچِل ..."
"یار ... !!! پر یہ ڈیشنگ بندہ ہے بہت بدزوق ..." زری افسوس سے گردن ہلاتی بولی ...
"ڈیشنگ ... !!! اور یہ ...؟ تمہاری ڈیشنگ کی ڈیفینیشن یہ ہے ...؟" اوين نے گلی میں موڑ کاٹا ...
"کیا ہو گیا ہے تم کو ...؟" زری نے اپنی دونوں چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو حیرت سے گھمایا ...
"فواد خان ... Goerge Colony اور ہریتھک روشن کو ایک ڈبے میں ڈال کے زور زور سے ہلاؤ نا ... تو ایسا بندہ باہر نکلے گا ..." اس نے فرائز ختم کر کے ہاتھ جھاڑے ...
"اور وہ بدزورق کیوں ہے ...؟" اوين نے پھر بس سے پوچھا ...
"یار اتنی حسین لڑکی کو آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھتا ...مطلب حد ہے یار ... ایک نظر تو ڈالے ...سچ ميں پہلی نظر میں ہی تمہارا دیوانہ ہو جائے گا ..." زری نے اپنی دراذ قامت اور بےحدخوبصورت دوست کو اوپر سے نیچے تک دیکھا ...
اوین کو زری کی دونوں باتوں سے اتفاق تھا ... واقعی وہ بہت ڈیشنگ بھی تھا اور بہت بدزوق بھی ... پر زری کی بات سےاتفاق کر کے وہ مزید کوئی بات نکالنا نہیں چاہتی تھی ... اس لئے کوئی جواب نہیں دیا ..
"میرےخیال میں کسی کو تو انفارم کر دو ..." زری نے پھر بات کی ...
"تم کو معلوم ہے نا ... بس کافی ہے ... اب اس بات کو جانے دو ... اگر وہ پھر کہیں نظر آیا تو سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے ... میں تم کو ڈراپ کر کے گھر جاتی ہوں ... باقی کام بعد میں ... اب بہت دیر ہو گئی ہے..."
زری کو ڈراپ کر کے اس نے اپنے گھر کی راہ لی ... زیادہ فاصلہ نہیں تھا ان دونوں کے گھروں کے درمیان ... زری اکثر اپنا پوائنٹ مس کر کے اوین کے ساتھ ہی جاتی تھی ... گھر کے سامنے گاڑی لا کے اس نے ہارن دیا ... مشروف چاچا بارش میں دوڑتے ہوئے آئے اور گیٹ کھولا ... اوین گاڑی پارک کر کے اتری ... کچھ سوچتی ہوئی پلٹ کے گیٹ تک واپس آئی ہی تھی کہ وہی بلیک اکارڈ سامنے سے جاتی ہوئی نظر آئی ...
"تو یہ آج بھی گھر تک آیا ہے ..." وہ کچھ پریشان پریشان سی اندر کی طرف بڑھ گئی ...
سید امان اللہ امین کا کوئی بہت بڑا کنبہ نہیں تھا ...بس ایک چھوٹی سی فیملی جس میں چار لوگ تھے ...
ان کی اہلیہ نازش امین ... بیٹا عمر امان اللہ اور ایک بیٹی اوین امان اللہ ...
سید صاحب ان خوش نصیبوں میں سے تھے جو جدی پشتی رئیس توضرور تھے ... پر انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے بھی اپنے خاندانی کاروبار اور روپے پیسے کو چار چاند لگا دیئے تھے ... اللہ نے کرم کیا کہ بہت حسین اور سمجھدار شریکِ سفر سے نوازا ... شادی کے کچھ سالوں بعد عمر کی پیدائش ... پھر اوین کی آمد ... ان کی زندگی پے خدا خاص مہربان تھا ...
امان اللہ صاحب کو اپنے بیوی بچوں سے بہت لگاؤ تھا ... دوستی یاری اپنی جگہ ... پر وہ اپنا فالتو وقت اپنے گھر پر گزارنا پسند کرتے تھے ... یہی عادت انہوں نے اپنے بچوں کو بھی سکھائی تھی ... بچوں کے ساتھ بہت بے تکلفی اور انڈر سٹینڈنگ تھی ... عمر اور اوین اپنے پاپا سے بہت فری تھے ... اور ہر ٹاہک پر دھواں دار بحث ہوتی تھی ... اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس میں اٹھنا بیٹھنا ... ہر سال فارن ٹرپس ... اور پیسے کی ریل پھیل ... ان تمام باتوں کے باوجود ان کے دونوں بچے بہت تمیزدار اور مہذب تھے ... وہ امیر باپ کی اولاد ضرور تھے پر بگڑے ہوئے ہرگز نہیں تھے ... ان کی تربیت میں بیگم نازش نے بہت دھیان رکھا تھا کہ کہیں پیسے کی فراوانی ان کے بچوں کو تہذیب سے غافل نہ کر دے ... وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی تھیں ...
امان اللہ صاحب کا تعلق اندرونِ پنجاب سے تھا ... پر انہیں دارالخلافہ اسلام آباد سے بہت خاص محبت تھی ... یہ شہر ان کے لئے بہت ساری خوش نصیبی لے آیاتھا ... بے انتہا حسین موسم ... پہاڑوں کے درمیان آبادی ... کسی جنت کی وادی کا گمان ہوتا تھا ...کئی کئی دنوں کی بارشوں کے بعد جب سورج اپنی چمک دمک دکھاتا تو مانو جیسے نئی زندگی نے کروٹ لی ہو ... یہی وجہ تھی انہوں نے مستقل رہائش کے لئےاس شہر کا انتخاب کیا ...