ہمارے رویئے جو نظر ثانی طلب ہیں
۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" ""
ایک محلے میں کتے بہت تھے۔ آتے جاتے ہر راہگیر پر بھونکتے اور بسا اوقات بلکہ اکثر اوقات راہگیروں کو کاٹ بھی لیتے۔بار بار کارپوریشن کو شکایت کرنے پر بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ ایک دن ایک چھوٹا لڑکا چار پانچ کتوں کے نرغے میں آ گیا۔ جب تک محلے والے بچے کو کتوں سے چھڑوانے میں کامیاب ہوئے، تب تک بچہ لہولہان ہو چکا تھا۔ خیر محلے والے لڑکے کو لے کر سرکاری ہسپتال کی طرف بھاگے۔ بچے کا خون بری طرح بہہ رہا تھا اور زیادہ خون بہہ جانے کے باعث بچہ نڈھال ہو چکا تھا۔ ٹریفک میں پھنستے پھنساتے جب تک رکشہ بچے کو لے کر ہسپتال پہنچا تو بچہ گہری بے ہوشی میں تھا۔ ایمرجنسی کے باہر کوئی سٹریچر نظر نہ آیا تو چند محلے دار بچے کو بازؤں پر اٹھا کر ایمرجنسی میں لے آئے، لیکن ایمرجنسی کے اندر کا منظر دیکھ کر ان کی مایوسی اور غصہ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ۔ کوئی بیڈ خالی ملنا تو دور کی بات، ہر بیڈ پر دو دو، تین تین مریض لیٹے تھے۔ اوپر سے ہر مریض کے ساتھ درجنوں اٹینڈنٹ ہونے کے باعث ایمرجنسی ، ایمرجنسی کم اور کسی سیاسی پارٹی کا جلسہ زیادہ لگ رہی تھی۔ زمین پر تھوڑی سی جگہ نظر آئی تو محلے داروں نے بچہ کو زمین پر ہی لٹا دیا اور کسی 'فارغ' ڈاکٹر کو تلاش کرنے لگے، لیکن سب ڈاکٹر انہیں مصروف نظر آئے۔ لے دے کر ایک سٹاف نرس انہیں پانی کا گلاس پیتے نظر آئی۔ بیچاری کو نہ جانے کتنی مشکل سے اور کتنی دیر بعد پانی پینے کی فرصت نصیب ہوئی ہو گی۔ لیکن محلے داروں کو وہ پانی پیتی سٹاف ایک سفاک درندہ سے کم نظر نہ آئی، تو ان میں سے ایک آدمی نے اس سٹاف پر چلانا شروع کر دیا۔ "ایدر مریض مر رئے نیں تو توں شربت پی رئی ایں"۔ اس آدمی کا یہ جملہ ختم ہونے سے پہلے دو عورتیں چیختے چلاتے، صلواتیں سناتے آگے بڑھیں اور اس سٹاف کو بازؤوں سے پکڑ کر، تقریبا گھسیٹتے ہوئے بچے کے پاس لے آئیں۔ اس سے پہلے کہ سٹاف انہیں ان کی بدتمیزی کا کوئی جواب دیتی اس کی نظر بچے پر پڑ گئی، جو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ سٹاف بچے کو دیکھتے ہی زور سے چلائی: "سر، پیشنٹ gasp کر رہا ہے" سٹاف کی آواز سنتے ہی آناً فاناً 3-4 ڈاکٹر اور اتنی ہی سٹافیں دوسرے کم سیرئس مریضوں کو چھوڑ کر مریض کے پاس آ گئیں۔ ایک ڈاکٹر نے فوراً بچے کی گردن (شہ رگ ) پر ہاتھ رکھا تو اسے اس کی نبض ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ زور سے چلایا
He is in severe shock , take large bore IV lines & push Normal Saline as fast as you can۔
ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق سٹافوں نے IV لائن لینے کی کوشش تو شروع کر دی، لیکن بلڈ پریشر بہت کم ہونے کی وجہ سے کوئی رگ (ورید) نہیں مل رہی تھی جس میں سوئی لگا کر بچے کو ڈرپ اور زندگی بچانے والے انجکشن دیئے جا سکتے۔ جب دو تین بار کی کوشش کے باوجود بھی سوئی (برینولا) نہ لگ سکی تو بچہ کے محلے داروں کے بپھرے ہوئے ہجوم بلکہ جم غفیر نے کارپوریشن کے کتوں کے خاتمہ کیلئے کوئی ایکشن نہ لینے سے لے کر، ٹریفک کے رش، ایمرجنسی کے باہر سٹریچر اور اندر خالی بیڈ نہ ہونے تک، ہر چیز کا غصہ ڈاکٹروں اور سٹافوں پر نکالنا شروع کر دیا۔۔۔
محرومیوں اور پریشانیوں کے مارے ، غصے میں بپھرے ہوئے مجبور، مقہور اور تعلیم و تربیت سے محروم، یہ جاہل غریب عوام اب اس وقت کہاں کسی کی بات سمجھنے والے تھے۔ ان کے گھر کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی آتی ہو نہ ہو، لیکن کیبل ضرور آتی ہے۔ ویسے بھی بے روزگار لوگ سارا دن گھر میں فارغ بیٹھ کر، خود کو نیوز چینل دیکھ کر اینٹرٹین نہ کریں تو اور کیا کریں۔ سو برس ہا برس سے، حکومت نے اپنی کرپشن ، عیاشیوں اور بے حسی سے توجہ ہٹانے کیلئے، ڈاکٹروں کے خلاف، نفرت کی جو آگ، بکاؤ میڈیا چینلز کے ذریعے، ان لوگوں کے دماغوں میں گھسیڑی تھی، اس کے باہر آنے، بلکہ یوں سمجھئے کہ نفرت کے اس آتش فشاں کے پھٹنے کا ٹائم ہو چکا تھا۔ لیکن سب سے پہلے باری آنی تھی ایمرجنسی کے اکلوتے و نہتے سیکورٹی گارڈ کی۔ سیکورٹی گارڈ بھی شاید بے وقوف تھا، یا شاید نیا تھا۔ کیونکہ اگر پرانا یا سیانا ہوتا تو دور کھڑا تماشا دیکھتا رہتا، اگر دو چار ڈاکٹر پٹ بھی جاتے، ایک آدھے کی ٹانگ بھی ٹوٹ جاتی تو خیر تھی۔ بھلا ڈاکٹروں کی پٹائی کونسی انہونی بات تھی، روز کا معمول تھا۔
خیر وہ ناسمجھ آگے آیا اور ہجوم سے رش کم کرنے کی درخواست کرنے لگا۔ بس پھر کیا تھا، نہ صرف اس بچے کے ساتھ آئے لوگ بلکہ آس پاس کے مریضوں کے بیشتر اٹینڈنٹ اپنے اپنے مریضوں کو چھوڑ کر اس کار خیر میں شریک ہو گئے۔کسی نے تھپڑ رسید کیا تو کسی نے مکا، کوئی لاتوں سے تواضع کرنے لگا تو کوئی گھونسوں سے۔ جس کا ہاتھ نہ پڑا اس نے نت نئی گالیاں نکال کر اس عوامی خدمت میں حصہ ڈالا۔ لیکن کچھ من چلوں نے ایمان کے کمزور ترین درجہ پر رہتے ہوئے، اپنے اپنے موبائل سے اس دلچسپ واقعہ کی محض ویڈیو بنانے پر اکتفا کیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ محفلِ یاراں، دورانِ ہلہ گلہ، اینٹرٹینمنٹ کے کام آوے۔
اب بچے کے ساتھ آنے والے بیشتر لوگ بچے کو بھول کر محض لڑائی میں مگن تھے۔ جبکہ ڈاکٹرز اور سٹافیں بدستور بچے کی زندگی بچانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ آئی وی لائن مل چکی تھی۔ بہنے والے خون کو روکنے کی کوشش بھی جاری تھی، کہ اچانک ایک ڈاکٹر، جس کا ہاتھ مسلسل بچے کی نبض پر تھا، نے کہا؛
His heart is failing, he is in severe bradycardia, please give Injection Atropine 1mg IV stat
سٹاف نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق رکتے دل کو چلانے والا ٹیکہ Atropine دینا شروع کیا، لیکن شاید ابھی انجکشن پورا بھی نہ گیا تھا کہ بچے کا دل رک گیا ہے۔ ڈاکٹرز نے فوراً دل کو مصنوعی طور پر چلانے والا عمل جسے CPR کہتے ہیں شروع کر دیا۔ ڈاکٹرز ابھی CPR کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک آدمی بولا : "اوئے اے کیڑا ٹیکہ لایا اے بچے نوں، چنگا بھلا منڈا ساہ لے ریا سی۔ تیرے ٹیکے دے بعد منڈے دا ساہ وی رک گیا، تے دل وی"
بس اس آدمی کا یہ کہنا تھا کہ ہر بندہ شور مچانا شروع ہو گیا، "غلط ٹیکہ لا دتا، غلط ٹیکہ لا دتا، غلط ٹیکہ لا کے منڈا مار دتا، چنگا بھلا منڈا لے کے آئے ساں، ڈاکٹراں نے غلط ٹیکہ لا کے مار چھڈیا، اے غلط ٹیکہ لان والے ڈاکٹر نوں نئیں چھڈنا۔ منڈا مار کے ہن منڈے دی لاش نال ڈرامے کرنا بند کرو۔ منڈا تے ختم ہو چکیا اے، ہن منڈے دی لاش نوں تکلیف دے رئے نیں۔ غلط ٹیکہ لا کے منڈا مار چھڈیا ظالماں نے ۔۔۔۔۔۔۔"
عین اسی وقت بچے کا باپ بھی ہانپتا کانپتا، بھاگتا ہوا ایمرجنسی میں داخل ہوا۔ اسے شاید کسی نے فون پر اس واقع کی اطلاع دی تھی۔ اپنے لخت جگر کو اس حال میں دیکھ کر اس کا دل بیٹھ گیا، بس زبان سے اتنا نکلا "کیسے ہوا یہ سب"
"غلط ٹیکہ" سب لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا۔ "چنگا بھلا منڈا لے کے آئے ساں، ظالماں نے غلط ٹیکہ لا کے مار چھڈیا۔"
یہ سب سن کر لڑکے کا باپ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ بیٹھا ایک طرف اپنے محلے والوں کو ہنگامہ کرتے، گالیاں نکالتے، شیشے توڑتے دیکھ رہا تھا تو دوسری طرف ڈاکٹر اس کے بیٹے کی "لاش" پر چڑھ کر اس کے سینے کو زور زور سے دبا رہے تھے۔
اچانک ڈاکٹرز نے سینے کو دبانا بند کر دیا اور ایک ڈاکٹر بولا "مبارک ہو پیشنٹ کا دل دوبارہ چل پڑا ہے۔ اس کی ایک خون کی موٹی نالی کٹ گئی تھی جسے ہم نے عارضی طور پر باندھ کر بلیڈنگ روک لی ہے۔ لیکن اسے فوری طور پر آپریشن تھیٹر میں شفٹ کر کے آپریشن کے ذریعے اس نالی کو repair کرنا ہو گا۔ چونکہ لڑکے کا خون کافی بہہ گیا ہے اس لئے ہمیں کم سے کم دس خون کی بوتلیں چاہیئے ہونگی۔ یہ لیں خون کا سامپل اور آپ سب لوگ بلڈ بینک چلے جائیں اور مریض کیلئے جلد از جلد خون کا انتظام کریں۔"
جو جتنی شدت سے ہنگامہ کر رہا تھا اس پر اتنی ہی شدت کا سکتہ طاری ہو گیا۔ بس ایک آواز آئی۔"ہن خون دا انتظام وی اسی کرنا اے؟" تو دوسرا بولا "منڈا تے مر گیا اے ہن خون لا کے کی کرنا جے؟" لیکن ایک دو آوازوں کے بعد ایک ایک کر کے لوگ باہر نکلنا شروع ہو گئے، تھوڑی دیر میں ایمرجنسی سے سب محلے دار نکل گئے، لیکن بلڈ بینک صرف ِاکَّا دُکَّا لوگ خون دینے پہنچے۔
سرکاری ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹر بالعموم مریضوں کے بے انتہا رش کے باعث مصروف رہتے ہیں، لیکن لڑکے کی خوش قسمتی تھی کہ ڈاکٹرز کو آپریشن تھیٹر کے خالی ہونے کیلئے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا، لڑکے کو آپریشن تھیٹر منتقل کیا گیا، زیادہ تر محلے دار خون دئیے بغیر فرار ہو گئے تھے، اس لئے لڑکے کا باپ صرف 8 بوتلوں کا انتظام کر پایا تھا۔ 4 خون کی بوتلیں no donor basis پر بلڈ بینک سے ہی مل گئیں، پھر بھی 3 ڈاکٹرز کو دوران ڈیوٹی بلڈ ڈونیٹ کرنا پڑا۔
جس دوران لڑکے کا آپریشن ہو رہا تھا، چند میڈیا والے بھاگے بھاگے ایمرجنسی میں آئے اور اپنے کیمرے سیدھے کر کے پوچھنے لگے کدھر ہے وہ لڑکا جس کو ڈاکٹر نے غلط ٹیکہ لگا کر مار ڈالا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے جواب دیا "اس کا اوپر آپریشن تھیٹر میں آپریشن ہو رہا ہے" تو ساتھ کھڑی ایک سٹاف نرس کی تھوڑی سی ہنسی نکل گئی۔
میڈیا والا چند لمحے کیلئے تھوڑا سا شرمندہ ہوا ، لیکن پھر کونے میں جا کر فون پر بات کرنے لگا "یار وہ لڑکا تو بچ گیا ہے۔ نہیں نہیں ۔ ابھی ڈاکٹر کی مبینہ غفلت سے ہلاکت والی خبر نہ چلانا۔ ابھی لکھو کہ
"ڈاکٹرز کی مبینہ غفلت سے کم سن لڑکے کی حالت بگڑ گئی"،
اور لکھ دو
" بے رحم، سفاک ڈاکٹروں کا مریض کو بیڈ دینے سے انکار، مریض کو زمین پر بے یار و مددگار، تڑپتا چھوڑ کر رنگ رلیاں مناتے رہے۔"
اور لکھو
"سفاک مسیحاؤں کی بے حسی عروج پر، انسانیت بھی شرما گئی"
اور لکھنا
"خادم اعلی نے جلاد ڈاکٹروں کے بے رحم طرز عمل کا نوٹس لے لیا۔ ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی۔"
اور لکھو
" ڈاکٹر کے غلط انجیکشن لگانے سے مریض کی حالت سیرئس ہو گئی۔"
لڑکا آپریشن کے بعد، مکمل صحتیاب ہونے تک ہفتہ بھر ہسپتال میں داخل رہا۔ ہفتہ بھر یہ ڈاکٹر مخالف " ٹکر" مختلف چینلز پر چلتے رہے۔ لڑکا صحتیاب ہوا ، تو ایک ڈاکٹر نے ایک رپورٹر سے رابطہ کیا اور اسے یہ ٹکر چلانے کیلئے کہا:
"ڈاکٹرز کی محنت رنگ لے آئی۔ زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا لڑکا آپریشن اور ہفتہ بھر کے علاج کے بعد رو بصحت"
رپورٹر نے نہ صرف یہ " ٹکر" چلانے سے پیشگی معذرت کر لی ، بلکہ صاف بتادیا "ڈاکٹر صاحب ایسی خبروں میں عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔"
"تو پھر کیسی خبروں میں ہوتی ہے عوام کو دلچسپی؟" ڈاکٹر نے پوچھا ؛
رپورٹر نے ہنستے ہوئے جواب دیا:
" ڈاکٹر کے غلط انجیکشن لگانے سے مریض کی حالت سیرئس ہو گئی ۔"