السلام علیکم ،
دنیا میں جیسے جیسے ابادی بڑھ رہی ہے اسی طرح سے الودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں ہر طرح کی الودگی شامل ہے۔
فضائی الودگی، ماحولیاتی الودگی، شور کی الودگی، غذائی الودگی، وغیرہ۔
شور کی الودگی جتنی بری طرح سے انسانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے میرا نہیں خیال کہ کوئی اور الودگی ہمارے صحت پر اتنا برا اثر ڈالتی ہوگی۔ کیونکہ جب انسان کے کان میں حد سے بڑھ کے شور پہنچتا ہے ،تو وہ اس کے دماغی امراض کا سبب بنتا ہے۔ اور اس کا ذہن کسی ایک نقطے بے فوکس نہیں ہو پاتا۔ اس کے علاوہ یہی شور کی الودگی انسان کے اعصاب کو بھی بری طرح سے متاثر کرتی ہے۔ جو کہ انسان کو اعصابی کمزوری کا مریض بنا دیتی ہے۔ اور اگر دیکھا جائے تو اسی شور کی الودگی سے ہی انسان کی صحت اتنی بری طرح متاثر ہوتی ہے کہ حد سے زیادہ شور دل کی دھڑکن بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بلڈ پریشر ،دل کی تکالیف اور اعصابی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ شور کی الودگی ہے۔
شور کی آلودگی
دنیا میں شور کرنے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں ابادی کا تناسب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس لیے ٹریفک بھی بہت بے ہنگم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔جس کی وجہ سے گاڑیوں کا شور اور دھواں ہماری صحت اور اعصاب دونوں پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اسی کی وجہ سے ہمارے ہسپتالوں میں دل کے امراض کے مریض بہت زیادہ نظر اتے ہیں۔
ضروری نہیں ہے کہ انسان گھر سے باہر نکلے تو ہی اس کو شور کا سامنا کرنا پڑے ۔بلکہ انسان کو شور کہیں بھی کسی بھی وقت پریشان کر سکتا ہے۔ اکثر بچے گھر میں کھیلتے ہوئے بھی اس بات کا دھیان نہیں کرتے کہ کھیلتے ہوئے شور نہ کریں۔ انڈور گیمز میں بھی بچوں کا شور اور گیمز کی اپنی اواز اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ باقی گھر والے ان کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ خاص طور سے جو لوگ ذہنی یا اعصابی کمزوری کا شکار ہوں ان کی طبیعت پر یہی شور بہت گراں گزرتا ہے۔
اس کے علاوہ جب بچوں کو اسکول بھیجیں تو اسکول ،کالج، یونیورسٹیز تک میں اس چیز کا لحاظ نہیں کیا جاتا کہ، بچوں کو پرسکون رہنے کی تربیت دی جائے۔ بلکہ کسی بھی قسم کا کوئی بھی ایونٹ ہو بچوں کے لیے میوزک اونچی اواز میں چلانا اسکول والوں کا عام وتیرا بن گیا ہے۔ کوئی فنکشن ہو یا کوئی سیلیبریشن تیار کی جا رہی ہو میوزک، ڈانس، ارٹ کے نام پر شور اور ہنگامہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور بچوں میں بچپن سے ہی شور کرنے کی عادت ڈیویلپ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
حالانکہ تعلیمی ادارے ایسی جگہ ہوتے ہیں، جہاں بچوں کی بنیاد سے لے کے تعمیر تک مکمل تربیت کی جاتی ہے۔ بچے گھر سے زیادہ اپنے اسکول اور تعلیمی اداروں سے جلدی سیکھتے ہیں۔ اپنے اساتذہ اپنے ساتھیوں سے جو باتیں سیکھتے ہیں وہ ان کے ذہن پر دیر پا اثر کرتی ہیں ۔لہذا اگر اسکول میں اساتذہ ان کو اس چیز کی تربیت دیں کہ، پرسکون زندگی گزاری جائے اور شور کرنا غلط عادت ہے، تو بچوں کے اندر شروع سے ہی الودگی شور کی الودگی پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
دیکھا جائے تو شور کی الودگی پہ قابو پانے کے لیے حکومت نے بھی کافی اقدامات کیے ہیں۔ اور اج کل اس طرح کے رکشے بھی نظر انے لگے ہیں جو کہ بغیر اواز کے چلتے ہیں۔ جن کے اندر سائلنسر کا بہت خیال کیا جاتا ہے۔ اور لوگوں کو رکشے کی اواز بری نہیں لگتی۔
میرے خیال میں اگر ہر طرح کی وہیکل میں سائلنسر کا خیال رکھا جائے تو شور کی الودگی پہ بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جب عمارتی کام ہو رہا ہو تو وہ مشینیں جن کی وجہ سے شور ہو ان کو شہر سے دور رکھا جائے۔ اور ان سے بنائی گئی چیزیں شہر سے دور ہی بنا کے تیار حالت میں لا کے عمارت میں لگایا جائے۔ ورنہ انسان پرسکون زندگی گزارنے یا تھوڑی دیر کو سکون حاصل کرنے کے لیے شہر سے دور کسی پرسکون جگہ پہ جا کے وقت گزارنا پسند کرتا ہے۔ اب وہ سمندر کا کنارہ بھی ہو سکتا ہے، اور کوئی پرفضا مقام بھی۔
اس دنیا میں شور کی الودگی پہ قابو پانا اہستہ اہستہ ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری امید یہی ہے کہ ہم خود بھی اپنے اپ کو پرسکون زندگی کا عادی بنائیں ۔اور اپنی ائندہ انے والی نسلوں کو بھی ہلکی اواز میں بولنا، زندگی گزارنا سکھائیں۔
امید کرتی ہوں کہ، اپ میری خیالات سے اتفاق کریں گے۔
کچھ خاص لوگوں کو اس کمپٹیشن میں وہ مقابلے کے لیے دعوت دوں گی۔ اور اس کے ساتھ ہی اجازت چاہوں گی اللہ حافظ۔