Weekly Contest - Best Diary Game | ایک سبق آموز واقعہ

in hive-180106 •  13 days ago  (edited)

عبدالغفور ہماری لاہور کی مل میں ملازم تھا‘ وہ بلا کا کام چور‘ سست اور دھوکے باز تھا‘ وہ مل کی گندم اور آٹا چوری کر کے بھی بیچ دیتا تھا‘ کام میں بھی سستی کرتا تھا اور وہ جی بھر کر نکھٹو بھی تھا‘ ہم نے کئی بار اسے نکالنے کا فیصلہ کیا لیکن پھر میں اپنے والد کی وجہ سے رک جاتا تھا‘ میرے والد نے نصیحت کی تھی‘ میرے بعد کسی ملازم کو نوکری سے نہیں نکالنا‘ عبدالغفور مجھے والد کی طرف سے ورثے میں ملا تھا چنانچہ میں اسے برداشت کرنے پر مجبور تھا۔
عبدالغفور کو زندگی میں کسی نے کبھی نماز پڑھتے دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی نیکی کا کام کرتے‘ وہ دبا کر سگریٹ بھی پیتا تھا اور چرس بھی‘ وہ پوری زندگی مقروض بھی رہا تھا‘ ہم ہر سال اپنے ایک ملازم کو حج پر بھجواتے تھے‘ ہم اس ملازم کے تعین کے لیے قرعہ اندازی کرتے تھے‘ ہم نے ایک سال قرعہ اندازی کی‘ عبدالغفور کا نام نکل آیا‘ ہم نے اسے حج کی پیشکش کی لیکن اس نے انکار کر دیا‘ لوگوں نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ نہیں مانا چنانچہ ہم نے دوسرے ملازم کو بھجوا دیا‘ اگلے سال پھر اس کا نام نکل آیا‘ عبدالغفور نے اس سال بھی انکار کر دیا‘ ہم نے دوبارہ قرعہ اندازی کی‘ دوسری بار پھر اس کا نام آ گیا‘ ہم نے تیسری قرعہ اندازی کی پھر عبدالغفور کا نام آ گیا‘ ہم نے تجربے کے لیے مرتبان میں چوتھی مرتبہ عبدالغفور کی پرچی نہ ڈالی اور اس کی جگہ خالی پرچی ڈال دی۔
چوتھی مرتبہ پرچی نکالی تو وہ خالی نکلی گویا اللہ تعالیٰ ہر صورت عبدالغفور کو حج کرانا چاہتا تھا لیکن وہ نہیں مان رہا تھا‘ ہم نے اس پر بہت زور دیا مگر اس کا کہنا تھا مجھے تو نماز بھی نہیں آتی‘ میں حج کر کے کیا کروں گا‘ میں نے آخر میں اس کے ساتھ سودا کیا‘ میں نے اس سے کہا تم حج پر چلے جاؤ‘ میں تمہیں پورے سال کی تنخواہیں اضافی دے دیتا ہوں‘ وہ لالچ میں آ گیا‘ میں نے مولوی صاحب کا بندوبست کیا‘ مولوی صاحب نے اسے نماز اور حج کا طریقہ سکھایا‘ دعائیں اور آیتیں یاد کرائیں اور ہم نے اسے حج پر روانہ کر دیا‘ عبدالغفور حج پر گیا‘ حج کیا‘ طواف الوداع کیا‘ عشاء کی آخری نماز پڑھی‘ سجدے میں گیا اور سجدے ہی میں انتقال کر گیا۔
وہ مرنے کے بعد دیر تک سجدے میں پڑا رہا‘ ساتھیوں میں سے کسی نے ہلایا تو پتہ چلا عبدالغفور انتقال کر چکا ہے‘ آپ اللہ کے فیصلے دیکھئے‘ اس رات امام کعبہ کا انتقال بھی ہو گیا‘ اگلی صبح امام کعبہ کا جنازہ تھا‘ عبدالغفور کی میت بھی امام کعبہ کے ساتھ حجرے اسود کے سامنے رکھ دی گئی اور لاکھوں حاجیوں نے اس کا جنازہ پڑھا‘ ہمیں اطلاع دی گئی‘ ہم سے نعش کے بارے میں پوچھا گیا‘ ہم نے اس کی بیگم سے پوچھا‘ بیگم کا کہنا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے اگر اسے خانہ کعبہ بلایا ہے تو پھر اس کی تدفین بھی مکہ میں کر دی جائے‘ ہم نے اس کی تدفین کی اجازت دے دی اور یوں وہ مکہ مکرمہ میں دفن کر دیا گیا‘ میں اس کے نصیب پر حیران رہ گیا۔
میں اس کی بیگم کے پاس گیا اور اس سے عبدالغفور کی خوش بختی کی وجہ پوچھی‘ بیگم نے ایک عجیب بات بتائی‘ اس کا کہنا تھا’’ میرے خاوند میں کوئی خوبی نہیں تھی‘ اس نے زندگی میں کبھی کوئی نیکی نہیں کی ‘ میں خود حیران تھی اللہ تعالیٰ نے اسے کس نیکی کا صلہ دیا‘ میں کئی دن سوچتی رہی‘ پھر مجھے اچانک اس کی ایک اچھی عادت یاد آئی‘ ہمارے محلے میں ایک خوبصورت بیوہ ہے‘ یہ جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی‘ اس کی دو چھوٹی بیٹیاں تھیں‘ مکان اس کو اس کا مرحوم خاوند دے گیا تھا‘ گھر کے اخراجات اس کے دیور نے اٹھا لیے تھے لیکن مہنگائی میں اس کا گزارہ نہیں ہوتا تھا‘ وہ اپنی بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی تھی‘ وہ اس کے لیے دوسروں کے گھروں میں کام کرنے جاتی تھی لیکن وہ جہاں جاتی تھی لوگ وہاں اس کی عزت پر ہاتھ ڈال دیتے تھے چنانچہ وہ کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی تھی‘ میرے خاوند کو پتہ چلا تو وہ اس کی ڈھال بن گیا۔
اس نے اسے اپنی بہن بنا لیا‘ اس نے اپنی منہ بولی بہن کو گھر بٹھایا اور اس کی دونوں بیٹیوں کو اسکول داخل کرا دیا‘ وہ لوگوں سے قرض لے کر‘ آپ کی فیکٹری سے چوری کر کے ان بچیوں کو تعلیم دلاتا تھا‘ وہ ہفتے دس دن بعد اپنی منہ بولی بہن کے گھر راشن بھی دے کر آتا تھا لیکن اس نے راشن دیتے وقت یا بچیوں کی یونیفارم‘ کتابیں اور فیس دیتے ہوئے کبھی اس کے گھر کی دہلیز پار نہیں کی تھی‘ وہ یہ تمام چیزیں ایک بڑی سی ٹوکری میں رکھتا تھا‘ وہ ٹوکری بیوہ کی دہلیز پر رکھتا تھا‘ دروازے پر دستک دیتا تھا اور کہتا تھا مریم بہن میں نے سامان باہر رکھ دیا ہے‘ آپ اٹھا لیں اور مریم وہ سامان اٹھاتے وقت ہمیشہ کہتی تھی ’’جا میرے بھائی اللہ تعالیٰ تمہارا خاتمہ ایمان پر کرے‘‘ ہمیں یہ دعا عجیب لگتی تھی لیکن ہم چپ رہتے تھے‘ آپ نے اسے پچھلے سال بھی حج پر بھجوانے کی کوشش کی لیکن اس نے یہ سوچ کر انکار کر دیا وہ اگر سعودی عرب چلا گیا تو مریم بہن خود کو بے آسرا محسوس کرے گی۔
وہ اس بار بھی نہیں جانا چاہتا تھا لیکن آپ نے اسے پورے سال کی اضافی تنخواہ دے دی‘ عبدالغفور نے وہ ساری رقم مریم بہن کو دے دی‘ وہ حج پر چلا گیا‘ اس کا وقت پورا ہو چکا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے زبردستی مکہ بلوایا‘ مریم بہن کی دعا قبول ہوئی اور میرا خاوند ایمان کی عظیم حالت میں اللہ تعالیٰ کے پاس چلا گیا‘ آپ حیران ہوں گے مریم بہن نے جب یہ خبر سنی تواس کے منہ سے بے اختیار شکر الحمد للہ نکل گیا‘‘ وہ رکے‘ چند لمبے سانس لیے اور پھر گویا ہوئے’’میں یہ داستان سن کر سکتے میں آ گیا۔

اس سبق اموز واقعے سے ایک بات واضح ھو جاتی ھے ۔ کہ حقوق العباد ( یعنی بندوں کے حقوق ) کا اللّٰہ تعالیٰ ھاں کتنی قدر و منزلت ھےکہ ایک ایسے مسلمان جو صرف نام کا مسلمان تھا صرف خدمتِ خلق کے ایک عمل کو اللّٰہ تعالیٰ کے رضا کے کے لںُے کر رھا تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیاں عطا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا کہ ہر مسلمان رشک کرے گا کہ کاش ھمارے قسمت اور بھاگ بھی ایسے ہی جاگ اٹھے۔ تو ہمیں بھی چاھیے کہ کسی بھی مسلمان بندے کواعمال کے ترازو میں نہ تولیں اور اپنے اعمال پہ بھی نہیں اترانا چاہیے کہ میں تو نمازی ہںوں روزہ دار ھوں نہیں تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہںے بیشک خدمتِ خلق سے وابستہ عمل معمولی ھو صرف اللّٰہ تعالٰی کے رضا کے لیُے ھو اگر کوںیُ بھی عمل بےلوث اور خلوص نیت اور دل سے انجام دیںُے جاںُیں تو کیا معلوم اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کی آخرت بھی ایسے ھی سنوار دے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کی خاتمہ ایمان کے ساتھ اور اِس حال میں فرماںُیں کہ وہ ہم ہر راضی ھو آمین ثمہ آمین یا رب العالمین!!

( منقول )

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!