مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
عدیم ہاشمی
جو اگائے گا |
---|
وہی کھائے گا |
---|
یہ الفاظ سندھ کی زمین سے اس وقت ابھرے جب مائل بہ زوال مغلیہ سلطنت کے تخت سے دور ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ شاہی خاندان کے مقرر کردہ ارباب اختیار حکومتی ٹیکس کے نام پہ عوام کے بے جا استحصال میں مصروف تھے ۔ ایسے میں جھوک کے بسنے والے صوفی شاہ عنایت ڈٹ گئے۔ انہوں نے جھوک کے فقیروں کو اجتماعی کھیتی کرنے اور ضرورت کے مطابق اناج اگانے پہ مائل کیا ۔ شاہ عنایت پیداواری عمل میں مساوی شراکت داری کے قائل تھے وہ یہ بات جان گئے تھے کہ یہی وہ مرکزی نقظہ ہے جس کی بنیاد پہ وسائل کی مساوی تقسیم ممکن ہے۔ اجتماعی پیداواری عمل نے فقیروں کو بیگار ، بٹائی اور دیگر مصیبتوں سے نجات دلا دی۔
جھوک کے فقیروں کی آسائش کو دیکھتے ہوئے اردگرد کے لوگ بھی بڑے زمینداروں کو چھوڑ کر شاہ عنایت کی تحریک میں شامل ہوتے گئے۔ یہ بات خاندانی پیروں کو ناگوار گزری ۔صوفی شاہ عنایت کے فقیر دیگر علاقوں میں بھی اسی طرز حیات کی تبلیغ کرنے لگے۔
اور نتیجتاً زمیندار صوبے دار کی پشت پناہی پر جھوک پر ٹوٹ پڑے ۔ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا مگر کئی فقیر مارے گئے ۔ مقتولین کے وارثوں کی دہائی ایوان شاہی تک پہنچی تو زمینداروں کو لینے کے دینے پڑ گئے ۔ یوں جھوک کہ محبت کی مٹی سے گندھے انسانوں کی قربانی رنگ لائی اور قاتلوں کی زمینیں فقیروں کی جھولی میں آ گری۔
صوفی شاہ عنایت کی تحریک زور پکڑ گئی ۔ اور اسی طرح نئے اور زیادہ طاقتور دشمن بھی سامنے آتے گئے۔ اس دفعہ طاقت کے استعمال سے پہلے دماغ لڑایا گیا۔ نئے صوبےدار کو شاہ عنایت کی تحریک کے خلاف اکسایا گیا۔ صوبےدار نے فقیروں سے اس ٹیکس کا مطالبہ شروع کر دیا جو عرصہ پہلے حکومت منسوخ کر چکی تھی۔ انکار ہونے پہ صوبے دار نے جھوک کے باسیوں پہ حکومت وقت کے خلاف بغاوت ک الزام لگایا ۔ چنانچہ فرمانروا فرخ سیر نے بزور شمشیر باغیوں کو زیر کرنے کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے کی دیر تھی کہ صوبے دار اعظم خان نے سندھ کے رؤسا سے فوجی اعانت طلب کر لی۔
شاہ عنایت فطرتاً امن پسند انسان تھے ۔ جب فوجیں جمع ہونے کی اطلاعات ان تک پہنچی تو وہ سخت رنجیدہ ہوئے ۔ شاہ عنایت کے رفقاء نے انہیں دشمن پر راستے میں حملہ کرنے کا مشورہ کرنے دیا مگر وہ جنگجو سپہ سالار نہ تھے اس لئے یہ مشورہ مسترد کر دیا گیا ۔ بہرحال جھوک کی بستی کا محاصرہ کر لیا گیا ۔ انتہائی کم وسائل کے باوجود فقیروں نے جرات و استقلال کی انتہا کر دی ۔ محاصرے نے طول کھینچا اور زمینداروں کا صبر جواب دینے لگا۔ صلح کے دھوکے میں مقدس کتاب کو گواہ بنا کر جھوک کو اجاڑ ڈالا گیا، فقیر قتل ہوئے اور شاہ عنایت گرفتار کر لئے گئے۔ اعظم خان کو جب اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اس نہتے انسان کے عزم و استحکام کے سامنے بے بس ہے تو انہیں بے نیام تلواروں کے حوالے کر دیا۔
جھوک کہ یہ تحریک ناکام ہوئی کیونکہ حالات سازگار نہ تھے اور نہ اس تحریک کے بھیانک انجام کا شاہ عنایت کو ادراک تھا۔ مگر ظلم و جبر کی ہواؤں میں جہاں فیوڈل ازم صدیوں سے اپنی جڑیں مضبوط کرتا چلا آ رہا تھا شاہ عنایت نے ایک ہی جھٹکے میں انہیں اکھاڑ پھینکا ۔ ان کے اس تجربے نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر بڑی قوتیں روڑے نہ اٹکائیں تو اجتماعی پیداواری مشقت ہی وسائل کی منصفانہ تقسیم کا پیش خیمہ ہے۔ شاہ عنایت کے چاہنے والے اب بھی موجود ہیں مگر کم ہی جانتے ہیں کہ وہ برصغیر کے پہلے صوفی سوشلسٹ ہیں جنہوں نے اپنے دور کے حاکم جابر کی راتوں کی نیند حرام کردی تھی۔
روٹی ہے بھوکے شخص کے ایمان کی دلیل
مفلس کا کوئی دوسرا مذہب نہیں حضور
اک ایسا سانحہ ہوا جو گنگ کر گیا
آنکھیں تو کھل چکی ہیں مگر لب نہیں حضور
@aliraza51214
@ayesha0345
@hamidrizwan you guys are in.