السلام علیکم ،
بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ ان کو جو سکھایا جائے وہ ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ جیسے موم یا کلے کو جس رخ پر موڑیں وہ اسی رخ پر مڑ جاتی ہے ۔اسی طرح بچوں کو جس طرح کی شخصیت بنانے کے لیے تربیت دی جائے ویسے ہی تربیت ان کی شخصیت میں نظر انا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ تربیت اور اثر اس کے ماں باپ سے ہی اس کے خون میں شامل ہو جاتی ہے۔ایک بچہ پیدائش سے پہلے ہی اپنے ماں باپ سے بہت ساری چیزیں لے لیتا ہے ۔جیسے ناک نقشہ، رنگت، قد وغیرہ۔پیدائش کے بعد اس میں سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ماں باپ سے بہت ساری باتیں سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اس میں سب سے پہلی چیز جو وہ اپنے ماں باپ سے سیکھتا ہے۔ وہ ان کی پہچان ہے اسی طرح ماں باپ ان کو کھانا ،پینا ،چلنا ،پھرنا ،پہننا اوڑھنا، بہت کچھ سکھاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ!
ماں کی گود پہلی درسگاہ ہوتی ہے
اس کا مطلب یہی ہوا کہ جب بچہ نو مولود ہوتا ہے تو وہ اپنی ماں کا دودھ پیتے ہوئے بھی ماں کی بہت ساری عادات کو سیکھ لیتا ہے۔ جیسے اگر ماں دودھ پلاتے ہوئے کسی کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف ہو، یا دعائیں اور نیک کلمات پڑھ رہی ہو تو وہی سب کچھ بچے کے کانوں میں اور ذہن میں جانا شروع ہو جاتا ہے۔ بے شک ابھی وہ بچہ بول نہیں سکتا، مگر اس کا ذہن سب کچھ سیکھنے لگ جاتا ہے۔ اگر ماں غصیلے مزاج کی ہے اور اس کو کسی کے اوپر غصہ ا رہا ہو اور وہ دودھ پلاتے وقت اپنے اپ کو قابو میں نہ رکھ سکے اور غصہ کا اظہار کرے۔ تو یہی غصہ اس کی اولاد کے ذہن میں بھی چلا
جاتا ہے اور وہ خود بخود غصیلہ بچہ بن جاتا ہے۔
ماں باپ کے علاوہ گھر میں رہنے والے دوسرے افراد بھی بچے کے
شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ ان سے بھی بہت ساری باتیں سیکھتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے ماحول میں نکل کے وہاں کی بھی بہت ساری اچھی اور بری باتیں سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اس کو ماں باپ سے نہیں ملتی اور نہ اس نے اپنے گھر والوں سے نہیں سیکھی ہوتی۔ مگر اپنے گھر کے باہر اپنے محلے اور اسکول کے لوگوں سے سیکھتا ہے۔ اسی طرح استاد بھی بچے کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں ۔بچہ اکثر اپنے اساتذہ کو کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خاص طور پر ان استاد کو جو کہ اس کے پسندیدہ ہوں۔ اسی طرح بچے اپنے دوستوں سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں جو کہ ان کے مزاج سے ہم اہنگی رکھتے ہوں یا ان کو اٹریکٹ کرتی ہوں۔
اسی وجہ سے کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کے سامنے اچھے اخلاق سے پیش ائیں۔ بچے وہی سب کچھ معاشرے کو دیتے ہیں جو ہم اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں۔
ایک مقولہ ہے!
**بچے گنبد کی صدا کی مانند ہوتے ہیں۔ وہاں جو اواز نکالو بچہ وہی بات دہراتا ہے۔
تو واقعی اس ہی طرح ہم اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو دیکھیں تو وہ ہمیں اپنی نقل کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ کبھی ماں باپ کا لہجہ اختیار کر کے چھوٹے بہن بھائیوں کو ٹریٹ کر رہے ہوں۔ اور کبھی ماں باپ کے اسٹائل کو کاپی کرتے ہیں۔ ماں باپ بچوں کے اوپر اثر انداز ہونے والی سب سے پہلی شخصیات ہوتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں انے کے بعد جو رشتہ بچے کو سب سے پہلے ملتا ہے ،وہ اس کے ماں باپ ہوتے ہیں۔
بہت کم اس طرح کے کیسز ہوتے ہیں کہ کوئی بچہ یتیم خانے میں پلے یا معاشرے کے رحم و کرم پر پلے تو اس طرح کے بچوں کا تو المیہ ہی الگ ہے۔
مگر جو بچے ایک نارمل معاشرے میں نارمل ماحول میں پلتے ہیں ان کے لیے ان کے ماں باپ ہی سب سے پہلے اثر انداز ہونے والی شخصیات ہوتی ہیں۔
اگر ماں باپ ہر وقت اپس میں لڑائی جھگڑا کرتے رہیں تو بچوں کی شخصیت پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اور وہ معاشرے کے باغی فرد بن کے اٹھتے ہیں۔اکثر بچے سیلف کانفیڈنس کھو دیتے ہیں۔ اور ہر وقت ڈرے سہمے رہتے ہیں ۔کچھ بچوں کو برے لوگ میسر ا جاتے ہیں۔ اور وہ ان کی سرپرستی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ماں باپ ان کو گھر کے سے محبت کے بجائے گھر سے دوری کا سبق دیتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو پوری توجہ اور محبت کے ساتھ پا لیں تاکہ ہمارے بچے معاشرے میں ایک کامیاب شہری کے طرح سامنے ائیں اور ہمارا نام روشن کریں۔
اسٹیمیٹ کے میرے کچھ خاص ساتھی جو کہ بہترین پوسٹ لکھنے میں سب سے اگے ہوتے ہیں۔ ان کو بھی میں اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دوں گی۔
Share your post on Twitter. It helps us to further promote and expand our platform. Will be glad to see your post share on twitter. Below are the rules for sharing on Twitter. Please follow the guidelines of the post.
Guidelines post here.
Put the main three tags first for promotion. #steem $steem #steemit
Downvoting a post can decrease pending rewards and make it less visible. Common reasons:
Submit
Ok,thanks for guide
Downvoting a post can decrease pending rewards and make it less visible. Common reasons:
Submit