سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 108 سورہ البقرة آیت نمبر 164
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (164)
ترجمہ:
بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کی گردش میں اور جہازوں میں جو چلتے ہیں سمندر میں وہ چیزیں اٹھائے جو نفع پہنچاتی ہیں لوگوں کو اور جو اتارا اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی پھر زندہ کیا اس کے ساتھ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد اور پھیلا دئیے اس میں ہر قسم کے جانور اور ہواؤں کے بدلتے رہنے میں اور بادل میں جو حکم کا پابند ہو کر آسمان اور زمین کے درمیان (لٹکتا رہتا ) ہے (ان سب میں) نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں
تفسیر: اس آیت میں توحید کے دلائل شرح وبسط سے بیان کئے گئے ہیں۔ اس اہم ترین اور مشکل ترین مسئلہ کے اثبات کے لئے قرآن کا طرز استدلال فلسفیوں کے طرز استدلال سے بالکل الگ ہے۔ قرآن فکرو نظر کے گھڑے ہوئے دلائل پیش نہیں کرتا جو پیچیدہ اصطلاحات سے بوجھل ہوں۔ جن کو سمجھنے کے لئے خاص ذہنی اور علمی استعداد کی ضرورت ہو۔ اور سمجھ آ بھی جائیں تو ان میں وہ زور نہیں ہوتا کہ وہ انسان کو شک اور گمان کی دلدل سے باہر کھینچ لیں اور یقین کی منزل تک پہنچا دیں۔ اس کے برعکس قرآن کریم دلائل کو نیہ پیش کرتا ہے جو کائنات کے کھلے صفحات پر جلی قلم سے لکھے ہوئے ہیں جو روشن اور واضح اتنے ہیں کہ ہر شخص انہیں اپنی قابلیت کے مطابق سمجھ سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گہرے اور پیچیدہ اتنے کہ ماہر غوطہ زن بھی ان کی تہ تک پہنچنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ عقل گرہ کشا جتنی گرہیں کھولتی جاتی ہے اس سے زیادہ عقدہ ہائے لایخل اس کو چیلنج کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ ان دلائل میں جو شخص سنجیدگی سے غور کرے گا وہ یقین وتصدیق کی دولت سے مالا مال ہوگا۔ یہی ہے قرآن کے طرز استدلال کا طرہ امتیاز اور وجہ اعجاز ! اب آپ اس آیت کا بغور مطالعہ فرمائیں۔ آسمان کی نیلی وسیع چھت، اس میں لٹکے ہوئے ان گنت ستارے ، چاند اور سورج، پھر ان کا مقررہ وقت پر طلوع و غروب جن میں ایک سکنڈ کے برابر بھی کبھی فرق نہیں ہوتا، ان کی گردش کے متعین راستے جن سے سر مو کبھی انحراف نہیں ہوا۔ زمین کا یہ کشادہ صحن، اس میں رواں دواں ندیاں اور دریا، رات دن کی پیہم گردن، ان کا گھٹنا بڑھنا، بیکراں سمندروں کے سینوں پر مسافروں سے لدی اور سامان سے بھری ہوئی کشتیوں اور جہازوں کا خراماں خراماں آنا جانا، گھنگھور گھٹائیں اور ان کا موسلا دھار برسنا، پھر مردہ زمین کا دیکھتے دیکھتے سر سبز وشاداب ہو جانا، کرہ ہوا میں بادلوں کا منڈلاتے پھرنا، کبھی برسنا اور کبھی ترساتے ترساتے آن واحد میں ناپید ہوجانا ایسی چیزیں نہیں جسے عالم تو جانتے ہوں اور بےعلم نہ جانتے ہوں، جسے دانشمند سمجھ سکتے ہوں اور کم عقل کی سمجھ سے بالا تر ہوں بلکہ کائنات کی کتاب کا ہر ورق ہر کہ ومہ کے لئے یکساں طور پر روشنی کا مینار ہے۔ اور اس کے باوجود لطف یہ ہے کہ اتنا واضح ہونے کے باوجود اتنا سطحی بھی نہیں کہ اہل فکر ودانش کے لئے اس میں دلچسپی کا کوئی سامان نہ ہو بلکہ انہیں دعوت ہے کہ اپنے نشتر تحقیق سے ذرے ذرے کا دل چیریں اور دیکھیں کہ ان میں اسرار و رموز اور قوت وطاقت کے وہ سمندر موجزن ہیں جن کا انہیں تصور تک نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر لمحہ مشاہدہ میں آنے والی چیزوں کا ذکر فرمانے کے بعد قرآن نے بارہا افلا تتفکرون افلا تتدبرون کے جملے کہئے کیا تم غور نہیں؟ کیا تم تدبر نہیں کرتے؟ اور ان چبھتے ہوئے فقروں سے دانش وخرد کو للکارا ہے۔ کاش یہ الفاظ اس امت کے نوجوانوں کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کر دیں جن کی آسمانی کتاب نے انہیں واضح طور پر بتا دیا تھا۔ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی ہر چیز صرف تمہارے لئے پیدا کی ہے۔
ان روزہ مرہ دکھائی دینے والی چیزوں میں اگر آپ غور کریں گے تو آپ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ تنوع میں یکسانیت ۔ اختلاف میں توافق ، کثرت میں وحدت اور یہ بےمثال نظم وضبط بغیر کسی علیم ، حکیم اور قدرت والے خالق کے ظہور پذیر نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ روشن دلیلیں صرف ان کو فائدہ دیتی ہیں جن کی عقل کی آنکھ بینا ہے اور جو اس سے کام لینا پسند کرتے ہیں
والسلام