دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور بانیِ پاکستان محترم قائداعظم محمد جناح رحمتہ اﷲ علیہ کا شمار ایسی ہی گوہر نایاب شخصیات میں ہوتا ہے- ہر سال 25 دسمبر کو قائداعظم کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے ملک بھر میں تقریبات اور سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں جن میں ان کی شاندار خدمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے- اسی مناسبت سے آج قائد اعظم محمد علی جناح کے یومِ پیدائش کے موقع پر ہم ان کی زندگی کے وہ چند واقعات آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں-
وقت کی پابندی کتنی ضروری:
وفات سے کچھ عرصے قبل بابائے قوم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا یہ وہ آخری سرکاری تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشست ابھی تک خالی ہیں انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا ان میں کئی دوسرے وزراء سرکاری افسر کے ساتھ اس وقت کے وزیرا عظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذراسی غلطی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھولی گئی ۔
اعلیٰ ظرفی:
1943ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں ہندو اور مسلمان طلباء کے درمیان اس بات پر تنازعہ ہو گیا کہ یونیورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرا یا جائے۔ مسلمان طلباء کا ماننا تھا کہ کا نگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات کا عکاس نہیں اور چونکہ الہ آباد یورنیورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر تعلیم تھی اس لیے یہ پر چم اصولاً وہاں نہیں لہرایا جا سکتا ابھی یہ تنازعہ جاری تھا کہ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلباء کی یونین سالانہ انتخاب میں اکثریت حاصل کر گئی یو نین کے طلباء کا ایک وفد قائداعظم کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ پنجاب یورنیوسٹی ہال پر مسلم لیگ کے پر چم لہرانے کی رسم ادا کریں قائداعظم نے طلباء کو مبارک باد دی اور کہا اگر تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نا زیبا حرکت ہے کوئی ایسی با ت نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے کیا یہ منا سب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔۔
رشوت ایک ناسور:
ایک بار قائد اعظم سفر کر رہے تھے سفر کے دوران انہیں یاد آیا کہ غلطی سے ان کا ریل ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اور وہ بلا ٹکٹ سفر کر رہے ہیں جب وہ اسٹیشن پر اترے تو ٹکٹ ایگزامنر سے ملے اور اس سے کہا کہ چونکہ میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اس لیے دوسرا ٹکٹ دے دیں ٹکٹ ایگزامنر نے کہا آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں قا ئداعظم یہ سن کر طیش میں آگئے انہوں نے کہا تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف ورزی اور میری توہین کی ہے بات اتنی بڑھی کہ لوگ اکھٹے ہو گئے ٹکٹ ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑانا چاہی لیکن قائداعظم اسے پکڑ کر اسٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے بالاخر ان سے رشوت طلب کرنے والا قانون کے شکنجے میں آگیا۔۔
کفایت شعاری اختیار کرو:
محمد حنیف آزاد کو قائداعظم کی موٹر ڈرائیوری کا فخر حاصل رہا ہے ایک بار قائداعظم نے اپنے مہمانوں کی تسلی بخش خدمت کرنے کی صلے میں انہیں دو سو روپے انعام دئے- چند روز بعد حنیف آزاد کو ماں کی جانب سے خط ملا جس میں انھوں نے اپنے بیٹے سے کچھ روپے کا تقاضا کیا تھا- حنیف آزاد نے ساحل سمندر پر سیر کرتے ہوئے قائد سے ماں کے خط کا حوالہ دے کر والدہ کو کچھ پیسے بھیجنے کی خاطر رقم مانگی- قائداعظم نے فوراً پوچھا ” ابھی تمھیں دو سو روپے دئے گئے تھے وہ کیا ہوئے “حنیف آزاد بولے ”صاحب خرچ ہوگئے قائد اعظم یہ سن کر بولے ” ویل مسٹر آزاد، تھوڑا ہندو بنو “-
وکالت کے اصول:
وکالت میں بھی قائدِاعظم کے کچھ اُصول تھے جن سے وہ تجاوز نہیں کرتے تھے۔ وہ جائز معاوضہ لیتے تھے۔ مثلاً ایک تاجرایک مقدمہ لے کر آیا۔
مؤکل:مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اس مقدمہ میں میری وکالت کریں۔آپ کی فیس کیا ہوگی۔
قائدِاعظم: مَیں مقدمے کے حساب سے نہیں، دن کے حساب سے فیس لیتا ہوں۔
مؤکل: کتنی؟
قائدِاعظم: پانچ سوروپے فی پیشی۔
مؤکل: میرے پاس اس وقت پانچ ہزار روپے ہیں۔ آپ پانچ ہزار میں ہی میرا مقدمہ لڑیں۔
قائدِاعظم: مجھے افسوس ہے کہ مَیں یہ مقدمہ نہیں لے سکتا۔ہوسکتا ہے کہ یہ مقدمہ طول پکڑے اور یہ رقم ناکافی ہو۔ بہتر ہے کہ آپ کوئی اور وکیل کرلیں کیوںکہ میرا اصول ہے کہ مَیں فی پیشی فیس لیتا ہوں۔
چنانچہ قائدِاعظم ؒنے اپنی شرط پر مقدمہ لڑا اور اپنی فراست سے مقدمہ تین پیشیوں ہی میں جیت لیا اور فیس کے صِرف پندرہ سو روپے وصول کیے۔ تاجر نے اس کامیابی کی خوشی میں پورے پانچ ہزار پیش کرنا چاہے تو قائدِاعظم نے جواب دیا، ’’میں نے اپنا حق لے لیا ہے۔‘‘
عید کی نماز:
یہ 25 اکتوبر 1947 کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الاضحیٰ کا تہوار منایا جانا تھا۔ عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں کو منتخب کیا گیا اور اس نماز کی امامت فریضہ مشہورعالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے انجام دینی تھی- قائد اعظم کو نماز کے وقت سے مطلع کردیا گیا۔ مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا ’’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں‘‘ چناں چہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی۔ ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہُوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔ قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرأت ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔
Hi! I am a robot. I just upvoted you! I found similar content that readers might be interested in:
http://faizahmadchishti.blogspot.com/2016/04/blog-post_12.html
Downvoting a post can decrease pending rewards and make it less visible. Common reasons:
Submit