پنجاب کے دل لاہور میں اپنی ناقابل تسخیر سیاسی حمایت اور طاقت کا مرکز رکھنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چھبیس جون کے روز کراچی سے انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز کرنے کا اعلان کیا ہے اور امید ہے کہ اِس موقع پر انتخابی منشوربھی پیش کر دیا جائے گا۔ اگر نواز لیگ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے موقع پر پیش کئے گئے منشور ہی کو دوبارہ سامنے لے آئے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ وفاقی حکومت ملنے اور پانچ سال کی آئینی مدت مکمل کرنے کے باوجود بھی اس منشور کی کوئی ایک بھی شق ایسی نہیں‘ جس پر سوفیصد عملدرآمد کیا گیا ہو یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ عوام کونواز لیگ کے انتخابی منشور سے زیادہ اس داخلی دباؤ کے نظارے میں دلچسپی لے رہی ہے‘ جسکے نتیجے میں ممکنہ ٹوٹ پھوٹ کے اثرات کم کرنے کیلئے شہباز شریف جوڑتوڑ کیساتھ ساتھ سرتوڑمصالحتی کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسی کوششوں کے سلسلے میں وہ چوہدری نثار علی خان کے تحفظات دور کرنا چاہتے ہیں جنکی نواز لیگ سے 34 سال کی سیاسی رفاقت بالآخر ختم ہونے کے قریب آ پہنچی ہے!دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف نواز لیگ لوگوں کو یہ کہہ رہی ہے کہ انہیں جمہوریت اور جمہوری نظریئے کی بقاء کے لئے دوبارہ ووٹ دیا جائے اور مدمقابل تحریک انصاف ہے جسکی مرکزی قیادت بغیر ذہن لڑائے نہ صرف مقبول بلکہ خود کو خالص ترقی پسند قرار دیتی ہے۔
تصور کیجئے کہ موجودہ وقت میں جہاں بلاول بھٹو اپنے والد آصف زرداری سے دگنے امیر ہیں اور حیران کن طور پر زرداری کی مالی حیثیت اپنے بیٹے سے کم ہے تو تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ نوازشریف‘ اسحاق ڈار‘ خواجہ آصف اور دیگر کئی لیگی رہنماؤں کی اولادیں اپنے والدین سے زیادہ سرمایہ دار پائی جاتی ہیں اور کسی کو اِس بات پر شرمندگی نہیں! خیبرپختونخوا کے لیگی سربراہ امیر مقام تو سب سے انوکھے نکلے‘ جن کی اہلیہ ان سے زیادہ سرمایہ دار ہیں اور وہ اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر اپنی بیوی کے مقروض ہیں!بہرحال انتخابات میں عوام کی دلچسپی بڑھانے کے لئے سیاسی رہنما مختلف قسم کے کرتب دکھا رہے ہیں‘ جن میں چوہدری نثار بھی پیش پیش ہیں‘دراصل اونٹ والا محاورہ چوہدری نثار پر بھی صادق ہے کہ ان دونوں کے بارے میں یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ کس کروٹ بیٹھیں گے درحقیقت سارا معاملہ دائیں اور بائیں کا ہے۔ چوہدری نثار کی کتاب میں نواز لیگ مرکز میں دائیں طرف ہے‘ پیپلز پارٹی کے بالکل مخالف جو ہمیشہ گمراہ مگر نظریاتی طور پر مرکز میں بائیں جانب رہی ہے‘ اس فارمولا میں کسی دوسرے فریق کو شامل کرنے کی جگہ نہ ہونے کے برابر ہے‘عمران خان کیلئے بھی جگہ نہیں‘ تحریک انصاف کے رہنما نوازلیگ کے تجربہ کاروں کو اپنے ساتھ بٹھانے کی کوششیں بھلے کر رہے ہوں مگر چوہدری نثار بلکہ شاقی چوہدری نثار‘ ایسے آخری شخص ہوں گے جو اپنی پرانی دنیا کے آرام کا سودا کسی دوسری پارٹی کے اہم عہدے سے کریں گے اور خصوصاً ایک ایسی تحریک سے جو شاید ان کو فائدے دینے کی بجائے ان سے مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے‘۔
چوہدری نثار حقدار اور ناحق کی اس جنگ میں وہ اپنے پرانے ٹیگ کو خود پر چسپاں رکھتے ہیں اور جہاں ماضی کے کسی مخصوص حصے پر پچھتاوا ہوتا ہے وہاں اپنی ہمدردی اور خلوص کو شکوک کی زد میں لائے بغیر یہ ناممکن سا عمل بھی کر گزرتے ہیں‘ ان کے تازہ بیان میں وہ میاں نواز شریف کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ وہ پارٹی اور ملک چلانے کی صلاحیت سے کس قدر عاری ہیں۔ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ ’’ہم نے انہیں پارٹی لیڈر بنایا۔‘‘یہ بات پرانے وقتوں کا حساب رکھنے والوں کیلئے اطمینان کا باعث بنی ہے اس اطمینان کا سبب اس سے نہیں کہ جو انہوں نے کہا بلکہ اطمینان کا تعلق تو اس سے ہے کہ کتنی مدت کے بعد یہ سب کہا گیا ہے‘ چوہدری بطور خالص پاکستانی سیاستدان ہونے کے حوالے سے جو بھی خدشات ہیں وہ دور ہوجانے چاہئیں اور یہ کہ وہ یوٹرن مائل جدید دور کے مسافر نہیں‘چوہدری نثار یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’میں مسلم لیگ نواز کی اندرونی سیاست اور نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز کے بارے میں لوگوں کو بہت کچھ بتانا چاہتا ہوں مگر بیگم کلثوم نواز کی تشویشناک صحت کے پیش نظر میں اس حوالے سے عوامی سطح پر بات نہیں کروں گا۔‘‘ پاکستان کی سیاست میں ہر کسی کے پاس ’’راز ہی راز‘‘ ہیں جن کی موجودگی کا بتانے والے انہیں اگلتے نہیں۔ اگر ہمارے سیاستدان رازوں کی طرح اپنے اثاثہ جات کے بارے میں حق گوئی سے کام لیں تو اِس سے ملک و قوم کا زیادہ بھلا ہو سکتا ہے۔