💚 روزہ اور فطرانہ 💚
جب سے رمضان المبارک شروع ہوا ہے، جبھی سے اس بات پر بحث جاری ہے کہ فطرانہ کیا ہو، غلہ یا پھر نقد؟ ہمیں عادت سی ہو گئی ہے بحثا بحثی کرنے کی جس کی نذر ہم سب کا قیمتی وقت ہو رہا ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ کئی جانے مانے فتاوے جو در اصل اجتھادی غلطی کا نتیجہ تھے، اپنے آپ دم توڑ گئے ۔جب پہلی بار کاغذ کی کرنسی آئی تھی تو علماے کرام نے اسے ناجائز اور حرام بتایا تھا لیکن چونکہ یہ ایک عاقبت نا اندیشانہ فتوی تھا، اس لیے وہ دن آیا جب انہی علماے کرام کو یہ فتوی دینا پڑا کہ جیب میں کرنسی لے کر اس لیے نماز پڑھنا جائز ہے کہ وہ تو اندر ہوتی ہے، ظاہر نہیں ہوتی ۔
دوسرا فتوی، عورت کی ڈرائیونگ کے خلاف تھا جس کی ہوا بھی نکل گئی اور عورتوں کو ان کا صدیوں سے دبایا ہوا حق ملا ۔
ہوائی جہاز آیا تو اس سے پرواز بھرنا اس لیے غلط ٹھہرا کہ وہ کسی مسلم قبرستان کے اوپر سے گزر سکتا تھا اور قبروں کی بے حرمتی ہو سکتی تھی ۔ لیکن یہ فتوی بھی اوندھے منہ گرا ۔
فلم سازی اور فلم بینی پر بھی علماے کرام نے بڑا سخت فتوی دیا جو آج بھی جاری اور نافذ ہے لیکن چونکہ علما خود چپکے چپکے دیکھتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت نے اس کا متبادل پیش کرنے کے بارے میں سوچا ہی نہیں اور آج حالت بہ ایں جا رسید کہ غیروں نے ہماری جیب میں ہزاروں فلمیںٍ ڈال رکھی ہیں اور ہم لاکھوں فلمیں جیب میں لے کر نماز پڑھنے پر مجبور ہیں اور سب سے زیادہ فلم دیکھنے والی امت ہم ہی ہیں ۔اگر آنے والی عید کے دن ہم سلمان خان کی RACE 3 نہ دیکھیں تو وہ فلاپ ہو جاے گی ۔اب اسی طرح کا حشر اس فتوے کا بھی ہونا ہے کہ فطرانے میں نقد رقم نہیں نکالی جا سکتی، اس لیے کہ نصوص میں طعام کی قیدِ قطعی ہے ۔میرے خیال سے تمام دوطرفہ دلائل سے قطع نظر،
اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اناج اور غلہ تھا، اس لیے اناج نکالا گیا اور آج کی سب سے بڑی ضرورت پیسہ ہے، اس لیے پیسہ ہی نکالنا اولی ہے اس دور میں ۔
غلے سے فقرا حرج میں واقع ہوتے ہیں جبکہ دین حرج میں ڈالنے کے لیے نہیں، آسانی پیدا کرنے کے لیے آیا ہے ۔
گزشتہ سال جن جگہوں پر غلہ نکالا اور نکلوایا گیا تھا، ان میں سے بعض جگہوں پر ایسا ہوا کہ لوگوں نے 16 روپے کلو کے حساب سے خرید کر دیا اور بعد میں 14 روپے کلو بیچنا پڑا ۔بتایا جاے کہ2 روپے فی کلو کے نقصان کا حرجانہ کون بھرے گا؟ وہ تو فقرا کا حق تھا نا؟ کس نے برباد کیا اسے؟ واضح ہے کہ غلہ پر ضد کرنے والوں نے ۔
دوسری بات یہ کہ مولوی حضرات ادھر فطرہ پر نظر گڑاے ہوے ہیں اور ادھر ہو یہ رہا ہے کہ مسلمانوں کا صرف 40 فی صد حصہ روزہ رکھ رہا ہے ۔یعنی بالکل یہودیوں والا عمل ہم علماے کرام کر رہے ہیں ۔فرض گیا ندی کنارے چرنے اور ہم سنت کو لے کر جھگڑ رہے ہیں اور بے چارے روزےداروں کو پریشان کرنے کے لیے جدید ظاہریت کا تماشہ دکھا رہے ہیں ۔
رمضان المبارک ختم ہونے کو آیا اور اب تک بحث اس بات پر ہوتی رہی ہے کہ فطرانہ کیا نکالا جاے لیکن ایک دن بھی یہ بحث نہیں ہوئی کہ روزہ چوری ہو رہا ہے، اس کو کیسے روکا جاے ۔
کہتے ہیں کہ جب برٹش حکومت نے ہندستان میں پہلی بار کاغذی کرنسی چلائی تو دہلی کے کچھ لوگ ایک اہل حدیث عالم (جن کا نامِ نامی ذھن میں نہیں آ رہا ہے) کی خدمت میں حاضر ہوے اور گزارش کی کہ آپ بھی کاغذی کرنسی مخالف فتوے کے مسودے پر دستخط کر دیجیے تو انہوں نے دستخط یہ کہتے ہوے نہیں کیا کہ کرنسی چل جاے گی، میرا فتوی نہیں چلے گا ۔
یہی بات میں اس باب میں کہوں گا کہ فطرانے میں غلہ چلے گا نہیں، پیسہ چل جاے گا کیونکہ وقت کی سب سے بڑی احتیاج یہی پیسہ اور کرنسی ہی ہے ۔ویسے بھی فرض یفرض کے معنی صرف واجب کرنے کے نہیں ہیں، یہ بات تو ہر کسی کو معلوم ہے ۔
رہے نام اللہ کا!!!!
محمد ابراھیم سجاد تیمی
Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!