صدقہ فطر "رقم" میں نکالنے کا جواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: سرفراز فیضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت امام بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔
ابو اسحاق السبیعی جو خود تابعی ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو پایا کہ وہ رمضان کا فطرہ اناج کی قیمت میں نکالتے تھے ۔
10371 - حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ زُهَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، يَقُولُ: «أَدْرَكْتُهُمْ وَهُمْ يُعْطُونَ فِي صَدَقَةِ رَمَضَانَ الدَّرَاهِمَ بِقِيمَةِ الطَّعَامِ»
باب فِي إِعْطَاءِ الدَّرَاهِمِ فِي زَكَاةِ الْفِطْرِ ،الكتاب: الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، المؤلف: أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خواستي العبسي (المتوفى: 235هـ)
(2)بخاری شریف میں باب العض فی الزکوٰۃ میں ہے:
((قال معاذ لاھل الیمن أتونی بعض یثا بخمیص او لیس فی الصدقة مکان الشعیر والذرة اھون علیکم وخیر لا صحاب النبی ﷺ))
’’حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن کو کہا کہ بجائے جو اور جوار کے باریک کپڑے اور عام پہننے کے کپڑے صدقہ میں ادا کرو یہ تمہارے لیے آسان ہے اور اصحاب رسول کے لے زیادہ فائدہ مند ہے۔‘‘
(3) ہمارے زمانہ میں کرنسی بھی ایک طرح سے "طعام" ہی کا بدل ہے ۔ اب اگر کوئی آدمی یہ استدلال کرے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا اور چاندی پر زکاۃ نکالنے کا حکم دیاہے ۔ اور کرنسی کیونکہ سونا چاندی نہیں ہے اس لیے اس میں زکاۃ نہیں تو اور جو لوگ کرنسی میں زکوٰۃ نکالنے کا حکم دے رہے وہ "نصوص" کی مخالفت کررہے ہیں تو اس کا آپ کیا جواب دیں گے ۔ وہی جواب ان لوگوں کا بھی ہے جو پیسہ میں فطرہ دینے کو ںصوص کے خلاف بنارہے ہیں ۔
(4)اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلہ ٹرانزیکشن میں کرنسی کی طرح استعمال ہوتا تھا۔فقہی اعتبار سے اس کی حیثیت ثمن کی تھی. اس کو سمجھنے کے لیے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے «مصراة» بکری خریدی اور اسے دوہا۔ تو اگر وہ اس معاملہ پر راضی ہے تو اسے اپنے لیے روک لے اور اگر راضی نہیں ہے تو (واپس کر دے اور) اس کے دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور دیدے۔ [صحيح البخاري حدیث نمبر 2151]
لہذا ہمارے دور میں فطرہ میں اناج کے بجائے پیسہ ادا کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے ۔
(5)فقہاء کے یہاں نقد میں فطرہ کی ادائیگی کی ساری بحث ان کے زمانہ کی کرنسی کے اعتبار سے ہے. جو ہارڈ کرنسی ہوتی تھی. یعنی ان کی ویلیو اپنے آپ میں ہوتی تھے.
ہمارے زمانہ کی کرنسی جس کو فیئٹ کرنسی کہا جاتا ہے . ہارد کرنسی کی طرح اس کرنسی کی نا اپنی کوئی ویلیو ہے. جیسے درھم اور دینار کی ہوتی ہے. نہ گولڈ اسٹینڈرڈ کرنسی کی طرح ان کی بیکنگ میں سونا ہوتا ہے.
اس لیے ان کی قدر ملک میں موجود سونے کی وجہ سے فکس نہیں ہوتی. بلکہ فارن ایکسچینج میں ان کی سپلائی ڈیمانڈ کی بنیاد پر طے ہوتی یے. اس اعتبار سے فقہاء کے یہاں نقد میں فطرہ کی ادائیگی کی جو بحث ہے وہ ہمارے زمانے کی کرنسی میں فطرہ کی ادائیگی کی بحث سے قطعا مختلف ہے. یہ مسئلہ نوازل میں سے ہے اور قدیم فقہاء کی بحث کا انطباق اس مسئلہ پر بالکل نہیں ہوتا.
ہماری کرنسی معاشی اصطلاح میں فیئٹ کرنسی کہلاتی ہے. یہ اپنے آپ میں زر نہیں ہوتی. اس لیے ان کو زر نمائندہ کہا جاتا ہے. یعنی ان کی حیثیت اموال کی رسیدوں کو ہی. ان اموال میں سونا چاندی کے ساتھ اناج بھی شامل ہے. اور ایک حیثیت سے یہ اناج کی رسید ہے. لہذاجیسے ہم اس کرنسی کو سونا اور چاندی کا بدل مانتے ہیں اسی طرح یہ اناج کا بھی بدل ہے.
اور فطرہ میں ان کی ادائیگی معنوی طور پر طعام ہی کی ادائیگی سمجھی جانی چاہیے.
(6)رقم صدقہ فطر ادا کرنا غرباء او مساکین کے لیے زیادہ مفید ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ مساکین جن کو اناج کی شکل میں میں فطرہ دیا جاتا ہےوہ بالآخر اناج بیچ کر اپنی دوسری ضروریات پوری کرتے ہیں ۔اور اس بیچے ہوئے اناج کی رقم ان کو بالعموم اصلی رقم سے کم ہی ملتی ہے ۔ لہذا فطرہ کی رقم میں ادا کرنا ان کے حق میں زیادہ مفید اور مصلحت کے مطابق ہے.
۔واللہ اعلم بالصواب
سرفراز فیضی
8080187588
اس تحریر میں جو پوائنٹس ذکر کئے گئے ہیں ان کا مختصر جواب یہ ہے:
1 – اس میں کہا گیا ہے: «ابو اسحاق السبیعی جو خود تابعی ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو پایا کہ وہ رمضان کا فطرہ اناج کی قیمت میں نکالتے تھے ۔ »
"میں نے صحابہ کو پایا" یہ بات اس حدیث میں دور دور تک نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس میں صحابہ کرام کے بھی داخل ہونے کا احتمال ہے۔ اب یہ احتمال کتنا قوی ہے اسے قرائن کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور قرائن سے غیر صحابہ کا مراد ہونا ہی قوی معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
2 – کہا گیا ہے: « بخاری شریف میں باب العض فی الزکوٰۃ میں ہے:
((قال معاذ لاھل الیمن أتونی بعض یثا بخمیص او لیس فی الصدقة مکان الشعیر والذرة اھون علیکم وخیر لا صحاب النبی ﷺ))»
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کو منقطع کہا ہے۔ (دیکھیں: فتح الباری 1/18)
اور منقطع ضعیف احادیث کی اقسام میں سے ہے۔
3 – کہا گیا ہے: « ہمارے زمانہ میں کرنسی بھی ایک طرح سے "طعام" ہی کا بدل ہے ۔»
اصل اعتراض تو یہی ہے کہ" بدل" جائز ہے یا نہیں۔ یہی محل نزاع ہے۔ جسے علماء ناجائز کہتے ہیں۔
دوسری بات جو روپئے پیسے پر زکاۃ کے تعلق سے کہی گئی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ کیا کسی کو اس بارے میں اختلاف ہے کہ جس طرح اس زمانے میں درہم ودینار کرنسی ہوا کرتے تھے آج کی کرنسی روپئے اور پیسے ہیں۔
اس لئے اس میں نصوص کی مخالفت جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے کسی عالم دین نے روپئے پیسے پر زکاۃ کے تعلق سے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔
4 – کہا گیا ہے: « اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلہ ٹرانزیکشن میں کرنسی کی طرح استعمال ہوتا تھا۔»
آج بھی گاؤں دیہاتوں میں اسی طرح غلہ کا استعمال ہوتا ہے، یہ صرف اسی وقت کی بات نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے غلہ پر صدقۃ الفطر کو فرض کیا کرنسی (درہم ودینار) پر نہیں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جو اس میں استدلال کیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ کھجور واپس کرنا اس میں امر تعبدی ہے۔
کیا مصراۃ کا معاملہ آج پیش ہو تو آپ ایک صاع کھجور کے بدلے پیسے دینے کو جائز کہیں گے؟
اس لئے یہ تو آپ کے خلاف دلیل ہوئی۔
5 – فیئٹ کرنسی ، ہارڈ کرنسی اور فارن اکسچینج کی بات ذکر کرنے کے بعد اس میں کہا گیا ہے کہ « اس اعتبار سے فقہاء کے یہاں نقد میں فطرہ کی ادائیگی کی جو بحث ہے وہ ہمارے زمانے کی کرنسی میں فطرہ کی ادائیگی کی بحث سے قطعا مختلف ہے. یہ مسئلہ نوازل میں سے ہے اور قدیم فقہاء کی بحث کا انطباق اس مسئلہ پر بالکل نہیں ہوتا.»
پہلی بات: اصل مسئلہ غلہ اور نقد کا ہے۔ جس طرح اس زمانے میں درہم ودینار نقود تھے آج کے زمانے میں روپئے اور پیسے نقود ہیں۔ اور اسی تناظر میں علماء کرام نے اس مسئلہ کو سمجھا ہےاور بحث کی ہے۔ چاہے متقدمین علماء کرام ہوں یا متاخرین علماء کرام ۔ اس لئے ان کی تغلیط مناسب نہیں۔
دوسری: اگر مان لیا جائے یہ مسئلہ دور جدید کے نوازل میں سے ہے تو اس کے حل کے لئے دوسرے نوازل کی طرح کبار علماء کی طرف رجوع کرنا چاہئےاور ہم جیسے صغار طلبہ علم کو خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔ اس صدی میں شیخ البانی ، ابن باز، ابن عثیمین ، صالح فوزان، عبد المحسن عباد، سلیمان رحیلی وغیرہ علماء کرام امت کے مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر چھوٹا وبڑا ان کے علم کی گواہی دیتا ہے اس لئے اگر حقیقت میں یہ مسئلہ نازلہ ہے تو وہ جو فتوی دیں اس کی اتباع کرنی چاہئے نہ کہ ان کی مخالفت۔
6 – کہا گیا ہے: «رقم صدقہ فطر ادا کرنا غرباء او مساکین کے لیے زیادہ مفید ہے۔»
یہ ایک مشہور منطق ہے جسے جواز کے قائلین بہ کثرت بیان کرتے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
(الذي يقول) نخرج القيمة هذا أفضل للفقير ، هذا يخطئ مرتين:
المرة الأولى : أنه خالف النص والقضية تعبدية هذا أقل ما يقال .
لكن الناحية الثانية : خطيرة جدا لأنها تعني أن الشارع الحكيم ألا وهو رب العالمين حينما أوحى إلى نبيه الكريم أن يفرض على الأمة إطعام صاع من هذه الأطعمة مش داري هو ولا عارف مصلحة الفقراء والمساكين ، كما عرف هؤلاء الذين يزعمون بأنه إخراج القيمة أفضل
(سلسلة الهدى والنور, الشريط 274, الدقيقة 55).
منقول.....