سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 105 سورہ البقرة آیات نمبر 157،158
بسم اللہ الرحمن الرحیم
أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157)
ترجمہ:
یہی وہ (خوش نصیب ) ہیں جن پر ان کے رب کی طرح طرح کی نوازشیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ سیدھی راہ پر ثابت قدم ہیں
تفسیر:اللہ تعالیٰ ان باہمت اور عالی حوصلہ لوگوں کو یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان پر ان کے پروردگار کی طرح طرح کی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور سیدھی راہ پر ثابت قدمی سے چلنے کی توفیق مرحمت کی جاتی ہے۔
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (158)
ترجمہ:
بےشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں پس جو حج کرے اس گھر کا یا عمرہ کرے تو کچھ حرج نہیں اسے کہ چکر لگائے ان دونوں کے درمیان اور جو کوئی خوشی سے نیکی کرے تو اللہ تعالیٰ بڑا قدر دان خوب جاننے والا ہے
تفسیر:شعائر جمع ہے شعیرۃ کی اس کا معنی علامت ہے۔ احناف کے نزدیک صفا ومروہ کے درمیان دوڑنا حج وعمرہ میں واجب ہے اور اس تعبیر کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں صفا پر اساف اور مروہ پر نائلہ کے بت نصب تھے۔ اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو اس جگہ سعی کرنا ناگوار گزرا جہاں پہلے بت رکھتے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تمہیں تو حضرت ہاجرہ کی پیروی میں دوڑنا ہے۔ تمہیں مناسب نہیں کہ تم بتوں کی وجہ سے اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ مکرمہ کی سنت کو ترک کردو۔ مسلمانوں کے دل میں جو نفرت تھی اس کو اس حکیمانہ انداز سے دور فرما دیا یعنی کوئی حرج نہیں ۔ بےشک صفا ومروہ میں دوڑ لگا لیا کرو۔ اور اس کا واجب ہونا حدیث پاک سے ثابت ہوا۔
والسلام