یہ 1976ء کی بات ہے خان عبدالقیوم خان قبائلی امور کے وزیر تھے ٹانک میں وہ ایک نمائندہ جرگہ سے خطاب کر رہے تھے جرگہ کے دوران بعض قبائلی مشران نے اپنے نائب تحصیلدار کیخلاف ان کو شکایتوں کا ایک انبار لگا دیا وزیر صاحب خاموشی سے ان شکایات کو سنتے رہے جب جرگہ ختم ہوا توانہوں نے تخلیہ میں اس نائب تحصیلدار کواسسٹنٹ کمشنر ٹانک کے آفس کے ایک کمرہ میں بلا کر اس کی خوب کلاس لی اور اسے سخت ترین الفاظ میں وارننگ دی کہ اگر دوبارہ اس کے بارے میں انہیں شکایات موصول ہوئیں تو اسے نوکری سے معطل یا برخاست کیا جا سکتا ہے وزیر موصو ف اگر چاہتے تو جرگہ کے دوران بھی اس نائب تحصیلدار پر برس سکتے تھے لیکن انہوں نے غالباً یہ سوچا تھا کہ اگر برسر عام انہوں نے اس نائب تحصیلدار کی بے عزتی کر دی تو کل کلاں وہ انتظامی امور نمٹانے کیلئے ان قبائل کو کیسے منہ دکھلا سکے گا جنکے امور نمٹانے کیلئے وہ مامور ہے وزیر موصوف اس کی عزت نفس کو مجروح بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور اس کو وارننگ بھی دینا چاہتے تھے لیکن جو راستہ انہوں نے اختیار کیا وہ دانش سے لبریز تھا یہ قصہ ہم نے اس لئے بیان کیا کہ چند روز قبل سندھ کے کسی جوڈیشل افسر کو جب عدلیہ کے ایک سینئر اہلکارنے رنگے ہاتھوں عدالت میں موبائل سیٹ استعمال کرتے دیکھا تو غصے میں ان کا موبائل اس سے لیکر زمین پر پٹخ دیا اور اس واقعہ کی نہ جانے کیسے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
اس جوڈیشل افسر نے ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اپنے عہدے سے صرف اس لئے استعفیٰ دے دیا ہے کہ بقول اسکے چونکہ وہ عام لوگوں کے سامنے اس واقعہ سے بے توقیر ہو چکا ہے لہٰذا اب اس کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنے عدالتی امور نمٹا سکے بہتر ہوتااگر اس جوڈیشل افسر کی عدالت میں بیٹھ کرموبائل سیٹ سے کھیلنے کے واقعہ پر اسکی سرزنش کسی اور انداز میں کی جاتی کہ جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی ‘کوئی بھی سرکاری اہلکار اگر ایک مرتبہ عوام کے سامنے بے عزت ہو جائے تو پھر وہ اپنے فرائض منصبی صحیح طورپر نمٹا نہیں سکتا ایک مرتبہ بنوں میں ایک لیڈی ڈاکٹر کو بنوں سے ملحقہ فرنٹیئر ریجن کے ایک قبیلے کے چند افرادنے اغواء کر لیا ظاہر ہے اس واقعہ پر بنوں میں شورو غوغا توہونا تھا بنوں کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے جو اس ملحقہ فرنٹیئرریجن کے معاملات بھی دیکھتا تھا مناسب کاروائی کی اور ملزم کے قبیلے کے مشران پر سیاسی دباؤ ڈالا اس عمل میں خواہ مخواہ ایک آدھ ہفتہ لگ ہی جاتا ہے ۔
اس اغواء کے واقعہ کے دوسرے دن اس وقت کے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے بنوں کادورہ کیا اور برسر عام ڈپٹی کمشنر بنوں کو وارننگ دی کہ اگر چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر لیڈی ڈاکٹر کو برآمد نہ کیا گیا تو پھر ڈی سی اپنا بوریا بستر باندھ لے مرتا کیا نہ کرتا چند گھنٹوں کے اندر اندر ملزم کو تاوان کی رقم ڈی سی صاحب نے ادا کی اور لیڈی ڈاکٹر صاحبہ برآمد ہو گئیں لیکن اس سے ایک غلط روایت کی یعنی تاوان کی رقم کی ادائیگی کی ایک رسم کی بنیاد پڑ گئی اگر وزیراعلیٰ صاحب دھمکی نہ دیتے اور تھوڑے حوصلے سے کام لیتے ہوئے ڈی سی کو موقع دیتے کہ وہ اس روایت پر عمل کرکے جسکے تحت ماضی میں اس قسم کی وارداتوں میں مغویوں کی برآمدگی بھی ہوتی تھی اور متعلقہ قبیلے پر جرمانے بھی لگتے رہے تھے تو بہتر تھا لیڈی ڈاکٹر بھی برآمد ہو جاتی اور ملزم کو تاوان بھی ادا نہ کرنا پڑتا ڈی سی کو برسر عام وزیراعلیٰ نے بے توقیر کرکے اسے ایک غلط کام کرنے پر مجبور کر دیا۔