تازہ غزل سے چند اشعار احباب کی نذر
پھول جوڑے میں سجانے کی ضرورت کیا تھی
مفت کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت کیا تھی
تیرے لہجے کے لگے زخم سے مر جائے گا
اب تجھے تیر چلانے کی ضرورت کیا تھی
کرب کے لمحے کہیں اور بھی کٹ سکتے تھے
دشت میں خاک اڑانے کی ضرورت کیا تھی
بیٹھتے پاس فقیرانہ ادا لوگوں کے
آپ کو چاند پہ جانے کی ضرورت کیا تھی
جب تجوری میں کوئی مال چھپایا ہی نہیں
در پہ دربان بیٹھانے کی ضرورت کیا تھی
لفظ چن چن کے مرے سینے میں دفنا دیتے
آگ پانی میں لگانے کی ضرورت کیا تھی
چاند سا چہرہ ذرا ڈھانپ کے نکلے ہوتے
شہر کا شہر جلانے کی ضرورت کیا تھی
کب یہ تنہائی میں کچھ بات کرے گی ساجد
میری تصویر بنانے کی ضرورت کیا تھی
وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے والو کبھی اُن کا جگر تو دیکھو
فیض احمد فیض
ساجد جاوید ساجد