احباب کی نذر غزل کے اشعار
بجھتا ہوا چراغ بہت دیر تک جلا
شب" نور کا سُراغ بہت دیر تک جلا
آخر تمام رِند زمانے سے اُٹھ گئے
خالی پڑا اَیاغ بہت دیر تک جلا
مدت ہوئی کہ خوف خدا کا نہیں رہا
لیکن جبیں پہ داغ بہت دیر تک جلا
بارش تو چار بوند پڑی تھی کہیں کہیں
کل شب وہ سارا باغ بہت دیر تک جلا
کیا کہا سچ کا بول بالا ہے
کس عدالت کی بات کرتے ہو
ساجد جاوید ساجد
دو چار لفظ کہتے ہی وہ تو چلا گیا
ساجد مگر دماغ بہت دیر تک جلا
خوں جلاتے ہو شب و روز کی مزدوری ہے
شعر گوئی بھی مرے دوست کوئی پیشا ہے
ساجد جاوید ساجد
ساجد جاوید ساجد