سیاست کا میدان ہو یا کوئی اور میدان کھلاڑی میں سب سے زیادہ جس بات کی اہمیت ہوتی ہے وہ بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے‘اگر کسی شخص میں بروقت اور صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو وہ اس میدان میں ہمیشہ ناکام رہے گا‘ سیاستدانوں کو ہم ملک کی تقدیر کے فیصلے کے لئے چنتے ہیں مگر صورتحال یہ ہے کہ ان میں اتنی بھی صلاحت نہیں کہ اپنے صوبے کے لئے ایک اچھا سا نگران وزیر اعلیٰ ہی چن لیں اگر دیکھا جائے تومرکز میں نگران وزیر اعظم کا فیصلہ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے لیڈروں نے کرنا تھا اس لئے کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے لیڈر آف دی ہاؤس جناب شاہدخاقان عباسی تھے اور حزب اختلاف سے پی پی پی کے جناب خورشید شاہ صاحب تھے‘ان دونوں میں کچھ بحث مباحثے کے بعد ایک نام پر اتفاق ہو گیاجو ان دونوں لیڈروں کی چشم جہاندیدہ کا ثبوت ہے اسی طرح صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم اور پی پی پی نے نگران وزیر اعلیٰ چننا تھا انہوں نے بھی ایک معمولی سے تو تکرار کے بعد ایک نگران وزیر اعلیٰ کو چن لیا‘صوبہ خیبرپختون خوامیں یہ کام تحریک انصاف اور جمعیت اسلام ف نے کرنا تھا ایک نام پراتفاق ہوا ہم خوش تھے کہ ہمارے صوبے نے سب سے پہلے ایک نگران وزیر اعلیٰ کا قیام عمل میں لا دیا ہے مگر افسوس کے دوسرے ہی دن یہ اتفاق نفاق میں بدل دیا گیا اور کہ نفاق تحریک انصاف کی طرف سے سامنے آیا اور پھر یہ تعیناتی پارلیمانی کمیٹی سے بھی نہ ہو سکی آخر کا ر اس کا معاملہ الیکشن کمیشن کے سپرد ہو گیا جہاں سے جسٹس (ر) دوست محمد صاحب کا نام فائنل کر دیا گیا۔
پنجاب میں بھی یہی ہوا کہ ایک شخصیت کے نام پر شہباز شریف اور میاں محمود الرشید کا اتفا ق ہو گیا اور یہ نام تحریک انصاف کی طرف سے دیا گیا تھا جس پر مسلم لیگ ن نے آمنا کہا مگر تحریک انصاف کو جلد ہی خیال آ گیا کہ جو نام انہوں نے دیا تھا وہ توان کیخلاف جانیوالی شخصیت ہے چنانچہ وہ نام واپس لے لیا گیا اور معا ملہ لٹک گیا اگر یہی فیصلہ سیاست دان خود کر لیتے تو کتنا بہتر ہو تا کہ قوم بھی جان لیتی کہ انکے نمائندوں میں قوت فیصلہ اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی صلاحیت مو جود ہے مگر یہ تحریک انصاف کے بچپنے کی وجہ سے نہ ہو سکا‘حالانکہ جو نام سامنے آیا ہے وہ تحریک انصاف کا ہی تجویزکردہ تھا‘اگر یہ دونوں پارٹیاں خود میں فیصلہ کرتیں تو کتنا اچھا ہوتامگر کیا کیا جائے کہ ابھی تک ایک پارٹی سے بچپنا نکل ہی نہیں پایا‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس پارٹی کا لیڈر اپنے بغیر ساری دنیا کو بے ایمان سمجھتا ہے اور ایسا شخص بہت خطر ناک ہوتا ہے ہم نے اپنی ساری سروس کے دوران یہی دیکھا ہے کہ جو شخص صرف خود کو دیانتدار سمجھتا ہے وہ ہمیشہ ایک ناکام افسر ثابت ہوتاہے‘اسلئے کہ جب آپ ایک بڑے عہدے پر ہوتے ہیں۔
تو آپ کو دوسروں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے‘ اس میں شک نہیں کہ ہر آدمی پوری طرح باصلاحیت نہیں ہوتا مگرجب آپ ایک شخص کو اعتماد دیتے ہیں تو وہ خودکو ایک عہدے کا اہل ثابت کرتا ہے اور ایک اہل شخص کو بھی اگر آپ اعتماد نہیں دیتے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو کام میں نہیں لا سکتایہی حال بلوچستان کے سیاسی لیڈروں کا ہے کہ وہ بھی کسی فیصلے تک نہیں پہنچ پائے اور اس کا فیصلہ بھی الیکشن کمیشن کو کرنا پڑا‘اس کو سیاستدانوں کی ناکامی ہی کہا جائے گا کہ وہ ایک اتنا معمولی سا کام بھی نہیں کر سکتے‘اگر ان سے یہ کام بھی نہیں ہو سکتا تو وہ کس طرح ایک ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کو دعویٰ کر سکتے ہیں‘اعتماد ایک افسر کی سب سے بڑی کوالٹی ہوتی ہے‘ہم نے دیکھا ہے کہ جس پرنسپل نے پہلی میٹنگ میں ہی یہ کہا کہ کالج بھی آپ کا ہے اور بچے بھی آپکے ہیں میرا کام صرف آپکی رکھوالی کرنا ہے تو پورے سٹاف نے دل لگاکر کام کیا اور بہتر نتائج دیئے مگر جس پرنسپل نے پہلی میٹنگ میں ہی یہ کہا کہ وہ سٹاف سے بھرپور طریقے سے کام لے گااور کسی کو اتفاقیہ چھٹی کی بھی اجازت نہیں ہو گی تو پھر سٹاف نے کبھی بھی اسکے ساتھ کوآپریٹ نہیں کیا‘ کسی بھی شخص سے کام لینے کا سب سے بڑا طریقہ یہی ہے کہ آپ اس کو اعتماد دیں‘ اسلئے کہ ہر شخص ایماندار ہو تا ہے اسے بے ایمان اسکے ساتھی اور افسر بناتے ہیں ۔
✅ @bilalkirmani, I gave you an upvote on your first post! Please give me a follow and I will give you a follow in return!
Please also take a moment to read this post regarding bad behavior on Steemit.
Downvoting a post can decrease pending rewards and make it less visible. Common reasons:
Submit