Zia ul Qur'an ضیاء القرآن

in ziaulquran •  7 years ago 

سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 103 سورہ البقرة آیات نمبر 153،154
بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153)
ترجمہ:
اے ایمان والو! مدد طلب کیا کرو صبر اور نماز (کے ذریعہ) سے بےشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
تفسیر: دنیا کی امامت کا جو شرف تمہیں بخشا گیا ہے اس کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے کہ صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو۔ مشکلات سے گھبراؤ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت پر بھروسہ کر کے قدم بڑھاتے چلو اور نماز سے اپنی بندگی کے تعلق کو پختہ بناتے رہو۔ یقیناً کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ (اس کی وضاحت پہلے بھی گزر چکی ہے) ۔
یہاں معیت سے خصوصی معیت مراد ہے یعنی تائید اور نصرت کی معیت۔ اور صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں۔ قلت بل معیۃ غیر متکیفۃ یتصنح علی العارفین۔ یعنی اس سنگت سے وہ خاص سنگت مراد ہے جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ صرف عارف ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں۔

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ (154)
ترجمہ:
اور نہ کہا کرو انہیں جو قتل کئے جاتے ہیں اللہ کی راہ میں کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم (اسے ) سمجھ نہیں سکتے
تفسیر: جب میدان بدر میں کئی مسلمان شہید ہوئے تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ فلاں مر گیا وہ اپنی زندگی کی لذتوں سے محروم ہوگیا۔ غیرت الٰہی اس کو برداشت نہ کر سکی کہ جن لوگوں نے اس کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی جانیں قربان کیں انہیں مردہ کہا جائے۔ اس لئے یہ آیت نازل فرما کر اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کو مردہ کہنے سے سختی سے روک دیا۔ بلکہ بتایا کہ وہ زندہ ہیں۔ شہدا کی زندگی کس قسم کی ہے؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے صاحب روح المعانی تصریح کرتے ہیں:۔ فذھب کثیر من السلف الی انھا حقیقیۃ بالروح والجسد وذھب البعض الی انھار وحانیۃ والمشھور ترجیح الاول ۔
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ ان کے روح کو جسموں کی قوت دیتا ہے ۔ وہ زمین، آسمان اور جنت میں جہاں چاہیں جاتے ہیں اور وہ (شہدا ) اپنے دوستوں کی امداد کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
جب شہدا کی زندگی کا یہ حال ہے تو انبیاء اور صدیقین امت جو شہیدوں سے مرتبہ وشان میں بالاتفاق اعلیٰ اور برتر ہیں ان کی زندگی میں کیوں کر شبہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی زندگی کی وجہ سے ان کے جسم خاکی بھی صحیح وسلامت رہتے ہیں۔ چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے روایت فرمایا کہ جنگ احد کے چھیالیس سال بعد حضرت عمر بن جموح اور حضرت عبد اللہ بن جبیر کی قبر (دونوں ایک ہی قبر میں مدفون تھے) سیلاب کی وجہ سے جب کھل گئی تو ان کے اجساد طاہرہ یوں ترو تازہ اور شگفتہ وشاداب پائے گئے جیسے انہیں کل ہی دفن کیا گیا ہو۔ (موطا) اس بیسویں صدی کا واقعہ ہے کہ جب دریائے دجلہ حضرت عبد اللہ (رض) بن جابر اور دیگر شہدا کی قبروں کے بالکل نزدیک پہنچ گیا تو حکومت عراق نے ان شہدا کرام کی نعشوں کو حضرت سلمان فارسی (رض) کے مزار پر انوار کے جوار میں منتقل کرنا چاہا تو ان حضرت کی قبریں کھودی گئیں ۔ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے پاک جسم صحیح وسلامت پائے گئے۔ ہزارہا مخلوق نے اسلام کا یہ معجزہ اور قرآن کی اس آیت کی صداقت کا اپنی ان آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ ومن اصدق من اللہ قیلا ۔
یعنی اس زندگی کی ماہیت وحقیقت تم اپنے عقل وحواس سے نہیں سمجھ سکتے۔ اگر تمہاری عقل نہ سمجھ سکے تو تم انکار کی جرات نہ کرنا۔
والسلام

30943631_167049897340060_3610551634473517056_n.jpg

30855727_160216974810122_6151216062131077120_n.jpg

30603760_163083374366167_7163760292994744320_n.jpg

30590700_219456012148890_2766402342457704448_n.jpg

30841924_2018853888435317_2020624294194708480_n.jpg

30592983_166068330775560_8751380866468413440_n.jpg

30592670_1589369517784810_5823033500760014848_n.jpg

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!
Sort Order:  
  ·  7 years ago Reveal Comment