سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 104 سورہ البقرة آیات نمبر 155،156
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155)
ترجمہ:
اور ہم ضرور آزمائیں گے تمہیں کسی ایک چیز کے ساتھ یعنی خوف اور بھوک اور کمی کرنے سے (تمہارے) مالوں اور جانوں اور پھلوں میں اور خوشخبری سنائیے ان صبر کرنے والوں کو
تفسیر: جب تک انسان اس دنیا میں ہے رنج وغم اور مصیبت والم سے اسے کم وبیش دو چار ہونا ہی پڑتا ہے۔ قرآن نے اپنے ماننے والوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو نے دیا کہ اسلام کے دامن میں پناہ لینے سے وہ اب ہر طرح کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچ گئے۔ البتہ قرآن نے مسلمانوں کو صبر کی ایک ڈھال دے دی جس سے وہ مصائب وحوادثات کے بےرحم حملوں سے اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں۔ انہیں ایک ایسا عقیدہ دے دیا جو ان کے سکون وقرار کو نازک ترین لمحوں میں بھی سلامت رکھ سکتا ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ جس کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ دیا اس میں مقابلہ کی ہمت ختم ہوجاتی ہے اور مصیبتیں اسے خس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہیں۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے مصائب کے سامنے ڈٹا رہے تو یہ کالے بادل خود بخود چھٹ جاتے ہیں۔ نیز جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ میں بھی اور میرا سب کچھ میرا اپنا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہے وہ کسی کے مرنے یا کھیتی باڑی اور کاروبار میں نقصان واقع ہونے سے اتنا دلگیر ہی کیوں ہوگا کہ اس کا حوصلہ ہی ٹوٹ جائے بلکہ وہ نئی جدو جہد کے لئے اپنے آپ کو تازہ دم پائے گا۔ اسی لئے قرآن نے رنجدہ واقعات کی طویل فہرست ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ وہ گر بھی بتا دیا جس پر عمل کر کے وہ ان نازک مرحلوں میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156)
ترجمہ:
جو کہ جب پہنچتی ہے انھیں کوئی مُصیبت تو کہتے ہیں بےشک ہم صرف اللہ ہی کے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
والسلام