سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 118 سورہ البقرة آیات نمبر 179,180
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (179)
ترجمہ:
اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے اے عقل مندو تاکہ (قتل کرنے سے ) پرہیز کرنے لگو
تفسیر: اس آیت کریمہ میں قانون قصاص کی علت اور حکمت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی اگر بےگناہ قتل کرنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی تو اس کا حوصلہ بڑھے گا۔ اور مجرمانہ ذہنیت کے دوسرے لوگ بھی نڈر ہو کر قتل وغارت کا بازار گرم کر دیں گے۔ لیکن اگر قتل کرنے والے کو سزا دی جائے تو اس سے بےشمار معصوم جانیں قتل وغارت سے بچ جائیں گی۔ آج بعض ملکوں میں قتل کی سز ا منسوخ کر دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سزا ظالمانہ اور بہیمانہ ہے۔ متقول تو قتل ہو چکا، اب اس کے عوض ایک دوسرے آدمی کو تختہ دارپر لٹکا دنیا بےرحمی نہیں تو کیا ہے۔ آپ خوفناک حقائق کو دلکش عبارتوں سے حسین بنا سکتے ہیں۔ لیکن نہ آپ ان کی حقیقت کو بدل سکتے ہیں اور نہ ان کے برے نتائج کو رو پذیر ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جس ملک کے قانون کی آنکھیں ظالم قاتل کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھ کر پرنم ہو جائیں وہاں مظلوم و بےکس کا خدا ہی حافظ، وہ اپنے آغوش میں ایسے مجرموں کو نازو نعم سے پال رہا ہے جو اس کے چمنستان کے شگفتہ پھولوں کو مسل کر رکھ دیں گے۔ وہ دین جو دین فطرت ہے، جو ہر قیمت پر عدل وانصاف کا ترازو برابر رکھنے کا مدعی ہے اس سے ایسی بےجا بلکہ نازیبا ناز برادری کی توقع عبث ہے۔
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (180)
ترجمہ:
فرض کیا گیا ہے تم پر جب قریب آجائے تم میں سے کسی کے موت۔ بشرطیکہ چھوڑے کچھ مال کہ وصیت کرے اپنے ماں باپ کے لئے اور قریبی رشتہ داروں کے لئے انصاف کے ساتھ۔ ایسا کرنا ضروری ہے پرہیزگاروں پر
تفسیر: ان آیات کریمہ سے عرب کے ایک اور جاہلانہ رواج میں اصلاح فرمائی۔ اہل عرب کا یہ دستور تھا کہ مرتے وقت اپنے مال کی وصیت ایسے لوگوں کے نام کر جاتے جن سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہ ہوتا۔ اور اپنے زعم باطل میں اسے سخاوت سے تعبیر کرتے۔ اور اگر کوئی وصیت کے بغیر مر جاتا تو وراثت صرف اولاد اور بیوی میں بٹ جاتی۔ والدین اور دوسرے رشتہ دار بالکل محروم رہتے۔ یہ دونوں صورتیں کیونکہ ظلم صریح تھیں اس لئے قرآن حکیم نے اس کی اصلاح کی
اس سے پہلے کہ وراثت کی تقسیم کا منظم ومکمل قانون نافذ کیا جاتا انہیں ان آیات میں وصیت کا حکم دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت کریں اور ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق حصہ دے دیں۔ لیکن اتنے اہم کام کو عوام کی مرضی اور صرف ان کے رحم وکرم پر چھوڑا نہیں جا سکتا تھا اس لئے کچھ مدت کے بعد سورۃ النساء میں وراثت کے احکام بالتفصیل بیان فرما دئیے۔ حضور کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے احکام وصیت اور احکام وراثت کی وضاحت فرماتے ہوئے دو قاعدے بیان کئے ۔ پہلا قاعدہ تو یہ ہے کہ ان رشتہ داروں کے لئے وصیت کی ممانعت کر دی جو وراثت میں حصہ دار ہیں۔ دوسرا قاعدہ ہے کہ وصیت کو مال متروکہ کے تیسرے حصے تک محدود فرما دیا۔ 3/1 حصہ تک اپنے غیر وارث رشتہ داروں یا دوسرے مستحق لوگوں یا رفاہ عام کے کاموں میں خرچ کر سکتا ہے۔ اسلام کا یہ وہ حکیمانہ اور متوازن نظام ہے جس پر مسلمانوں کو بجا طور پر نازاں ہونا چاہئے۔ بعض لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عائد کر دہ ان پابندیوں کو اپنی کم فہمی سے خلاف قرآن کہتے ہوئے ماننے سے انکار کر نے لگے ہیں۔ لیکن اگر وہ ذرا تامل کریں تو انہیں معلوم ہوجائے کہ اگر یہ پابندیاں اٹھا دی جائیں تو آپ کے نظام وراثت بازیچہ طفلاں بن کر رہ جائے۔
(مزید تحقیق کے لئے احقر کی تالیف سنت خیر الانام (صفحہ 287 تا 273 ملاحظہ ہو۔ تمام شکوک وشبہات کا مفصل جواب درج ہے)
والسلام