ہمارے محمد بڑی شان والے

in hive-104522 •  2 years ago 

نبی الرحمت صلی الله علیہ وآلہ وسلم بحیثیت محسن انسانیت
اگر ایک انسان ساری عمر سجدے میں پڑا رہ کر اس عظیم احسان کا شکریہ ادا کرنا چاہے جو کہ رب العالمین نے خاتم النبیین ، رحمتہ اللعالمین ، محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی صورت میں کیا ہے ادا نہیں کرسکتا۔

image.png

حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو تو ’’رحمۃ للعالمین ‘‘بناکر بھیجا گیا۔
حضور نے امن کے قیام و استحکام کےلیے ساری زندگی صرف کی،
بندوں کو الله سے ملایا۔
غریبی ہو یا امیری ،
رنج ہو یا راحت ،
حزن ہو یا مسرت ہر موقع اور مقام پر انسانیت کی راہ نمائی کی۔ ان کی تعلیم نے تمام انسانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ،
جانی دُشمنوں کو اَمن و امان عطا کیا ،
غیرمسلموں کو جان و مال، عزت و آبرو اور دیگر حقوقِ انسانی کی حفاظت میں مسلمانوں کے ہم پلّہ اور مساوی قرار دیا۔

حضور بطور نبی الرحمت صلی الله علیہ وآلہ وسلم بحیثیت محسن انسانیت نے تمام بنی نوع انسان کو انسانی ، قومی ، قانونی اور مالی مساوات کا درس دیا۔

رحمۃ للعالمین نے صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ یہودیوں ،
عیسائیوں ،
منافقین اور تمام مخالفین کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کیا اور ان کے ہر طرح کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی۔

حضور نے انسانوں کے تمام طبقات ،
امیر و غریب ،
عوام و خواص ،
بوڑھوں ،
بچوں ،
جوانوں ،
مردوں عورتوں ،
نیک و بد ،
محنت کشوں ،
مزدوروں ،
غلاموں ،
کنیزوں کے ساتھ رواداری و غم گساری ،
مساوات و ہمدردی کے جذبات سے معاشرے کو آراستہ کیا۔

کتنی محبت تھی ان کی اپنی امت سے۔
نبوت ملی تو حضرت خدیجہ رضی الله عنہا سے فرمانے لگے اے خدیجہ !

میرے آرام کے دن ختم ہوگئے۔

اپنی امت کی غم میں درد و فکر میں تو ان کے سینے سے ہانڈی کے ابلنے کی جیسی آواز آتی تھی لیکن دیکھو نا محسن انسانیت کو انہوں نے تکلیف دینے میں کوئی کسر نا چھوڑی۔

حضور کوجسمانی اور ذہنی اذیتیں دی۔
آپ پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی ،
آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ،
آپ کا گلا گھونٹا گیا
نماز کی حالت میں آپ پر اُونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی ،

طائف میں آپ کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔
لوگوں نے آپ کو اتنا لہولہان کیا کہ آپﷺ کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے۔

طائف گئے ان کی بھلائی کے لئے کہ میرے یہ امتی اللّٰہ پر ایمان لے آئیں اور ہمیشہ ہمیشہ کےلئے کامیاب ہوجائیں۔

طائف کے لوگوں نے اپنے محسن کے پیچھے شریر بچوں کو لگاکر دوڑایا۔
حضور نبی الرحمت جن پر تو رحمت برستی ہے ان پر پتھر برسائے گئے لہو لہان کئے گئے دیکھو نا محسن انسانیت کی زبان پر کیا ہے؟

اف تک نہیں ہے،
ہے تو بس ان کیلئے دعائیں ہیں کہ اے میرے رب! تیرے یہ بندے تو نادان ہیں بس تو ان کو ہدایت دے۔

آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا،
آپ مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون و اطمینان سے رہنے نہیں دیا گیا لیکن آخر میں فتح مکہ کے موقع پر ان کو جب اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی کہ آپ نبی الرحمت صلی الله علیہ وآلہ وسلم بحیثیت محسن انسانیت نے ارشاد فرمایا
’’میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا ،
آج تم پر کوئی الزام نہیں ،
جاؤ تم سب آزاد ہو۔
سبحان الله
حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک تمام دنیا کے لیے رحمت بن کر آئی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا تھا کہ
’’میں امن کا شہزادہ ہوں‘‘
لیکن امن و سلامتی کے شہنشاہ اعظم حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو رب العالمین ہی نے خطاب کیا
’’وما ارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعالمین‘‘
(محمد ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔
آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے خزانۂ رحمت میں دوست و دشمن ،
کافر و مسلم ،
بوڑھے بچے ،
عورت مرد ،
آقا و غلام ،
انسان و حیوان ہر ایک ہستی برابر کی حصے دار تھی۔
حضور صلی الله علیہ وآلہ وسلم تو سراپا محبت تھے محبت ان کے وجود سے چھلکی پڑتی تھے
الله کے نبی تھے،
کس قدر بارِ گراں ان کے کاندھوں پہ تھا جسمانی اور ذہنی مشقتیں تھیں
کتنے ہی جگہوں پہ ذہن الجھا ہوتا ہوگا
مصروفیات کا جو بوجھ ہم اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں،
اس سے کہیں زیادہ ان کے ساتھ تھا
پھر بھی ان کے نزدیک
"انسان" اور ان کے "جذبات" کتنے اہم تھے۔
انسانوں سے محبت کرنا، ان کو سمجھنا،
انہیں اہمیت دینا
وہ محبت بانٹتے تھے،
ایسے جیسے وہ مجسم محبت ہو
حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں
کہ اگر مدینہ والوں کی کوئی بچی آکر حضور صلی الله علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی۔
آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے اور پھر وہ جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی
کتنا پیارا ہے نا یہ انداز!
آپ صلی الله علیہ وسلم کی پشت پہ مہر نبوت تھی۔
بچے اس سے کھیلنے لگتے تھے
بچے تھے ناں!
ایک بچی ایسے ہی کھیلنے لگی تو خالد بن سعید نے اسے ڈانٹا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں روک دیا۔
ان کے ہاں تو ظاہری تعظیم ، خود پسندی سے زیادہ وہ چھوٹی سی مخلوق اہم تھی۔۔۔
کہتے ہیں کہ کھیلنے دو خالد!
ایک دفعہ کہتے ہیں کہ "میں نماز شروع کرتا ہوں اور ارادہ ہوتا ہے کہ دیر میں ختم کروں گا۔
اچانک کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے
اور میں نماز کو مختصر کردیتا ہوں کہ اس کی ماں کو تکلیف ہوگی"
عبادتوں میں بھی انسانی استطاعت کا خیال رکھا۔
دین کو اس قدر پُرمشقت نہیں بنایا کہ لوگ اس سے اکتا جائیں۔
اگر کئی بچے کہیں جمع ہوجاتے، تو انہیں قطار میں کھڑا کردیتے۔ اور پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر بیٹھ جاتے۔
اور فرماتے کہ تم سب دوڑ کر میرے پاس آؤ!
جو بچہ ہمیں سب سے پہلے چھوئے گا، ہم اسے یہ اور یہ دیں گے۔

وہ چھوٹے چھوٹے پیارے بچے بھاگتے۔۔۔
کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیٹ پہ گرتا،
کوئی سینہ مبارک پہ
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو سینے سے لگا کر پیار کرتے۔۔۔
کیسے خوش نصیب تھے وہ بچے! وہ ان کے سینے سے لپٹتے ہوں گے تو محبت کا کیسا لمس ان کے وجود کو سیراب کردیتا ہوتا۔۔۔
ان ننھوں کو کیا معلوم تھا کہ یہ رسالت مآب، خدا کے نبی و برگزیدہ ہیں۔۔۔
انہیں تو وہاں "رحمۃ للعالمین" نظر آتے تھے۔۔۔
وہ تو نبی الرحمت تھے
محسن انسانیت تھے وہ تو محبت تھے "
صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ❤️

Authors get paid when people like you upvote their post.
If you enjoyed what you read here, create your account today and start earning FREE STEEM!
Sort Order:  

Please share your discord name. I see your development post, i am interested to discuss on it.

Thnks for your time https://discord.gg/gWnKN5NyBY